مضمون: بیعت کی آٹھویں شرط

تحریر: محمد سلطان ظفر

یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا

اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاون لوڈ کرنے کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں

روزِ اوّل سے اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ دُنیا کی رہنمائی اور تربیت کے لئے انبیاء اور بزرگان نازل کرتا رہتا ہے۔ اسی سنت کے مطابق 19ویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلام کی حیاتِ نو اور عیسائیت کے ٹھاٹھیں مارتے سیلاب کے سامنے بند باندھنے

کے لئے ، اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کی ایک دور دراز بستی قادیان میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو نازل فرمایا۔
حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام پر کشوف و الہامات کا آغاز ہوچکا تھا اور بہت سے بزرگان آپ سے درخواست کرتے تھے کہ آپ ان کی بیعت لیں۔ مگر حکمِ خداوندی نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے کبھی کسی سے بیعت نہ لی۔ تاہم جب حکمِ خداوندی نازل ہوگیا تو آپ نے یکم دسمبر 1888عیسوی کو ایک پیغام خلق اللہ کو دیا جس کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں۔


’’میں اس جگہ ایک اور پیغام بھی خلق اللہ کو عموماً اور اپنے بھائی مسلمانوں کو خصوصاً پہنچاتا ہوں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لوگ حق کے طالب ہیں وہ سچا ایمان اور سچی ایمان پاکیزگی اور محبت مولیٰ کا راہ سیکھنے کے لئے اور گندی زیست اور کاہلانہ اور غدارانہ زندگی کے چھوڑنےکے لئے مجھ سے بیعت کریں۔ پس جو لوگ اپنے نفسوں میں کسی قدر یہ طاقت پاتے ہیں انہیں لازم ہے کہ میری طرف آویں کہ میں ان کا غم خوار ہوں گا اور ان کا بار ہلکا کرنے کے لئے کوشش کروں گا اور خداتعالیٰ میری دُعا اور میری توجہ میں اُن کے لئے برکت دے گا بشرطیکہ وہ ربّانی شرائط پر چلنے کے لئے بدل و جان طیار ہوں گے یہ ربّانی حکم ہے جو آج میں نے پُنچادیا ہے اس بارہ میں عربی الہام یہ ہے۔


اِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَا صْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا اَلَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ۔ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اِیْدِیْھِمْ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی
المبلغ خاکسار
غلام احمد عفی عنہ


(مجموعہ اشتہارات جلد1 1878ء تا 1893ء ایڈیشن 1989 صفحہ 188 )9 جمادی الاوّل 1306ھ بمطابق 12 جنوری 1889ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اور اشتہار شائع فرمایا جس میں دس شرائطِ بیعت کی تشریح بیان فرمائی۔ ان شرائط کی آٹھویں شرط مندرجہ ذیل ہے جو مضمون ہذا کا موضوع ہے۔
ہشتم :۔ یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔
(اشتہار تکمیل تبلیغ 9 جمادی الاوّل 1306 ہجری مطابق 12؍ جنوری 1889ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام شرائط بیان کرنے کے بعد تحریر فرمایا:

’’یہ وہ شرائط ہیں جو بیعت کرنے والوں کے لئے ضروری ہیں …‘‘
بیعت کی اس شرط کا مطالعہ گہرائی میں جاکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی یہ شرط بہت مشکل ہے اور اس پر عملدرآمد حقیقتاً ایمان کے لئے ایک امتحان ہے۔


ہر انسان کو قدرتی طور پر اپنی زندگی، اپنا مال و دولت، اپنی عزت ، اہلِ عیال اور رشتہ دار بہت عزیز ہوتے ہیں اور ان سے محبت کی وجہ سے ان کی حفاظت کے لئے حتی المقدور کوشش کرتا ہے۔ اگر ہم ان مندرجہ بالا دُنیاوی اموال اور رشتوں کا الگ الگ جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ تقویٰ کی وہ باریک راہیں ہیں جن پر چلے بغیرمسیح زماں علیہ السلام سے وفاداری کا دَم نہیں بھرا جاسکتا۔
ایک عام شخص بھی اپنے مال ودولت کی حفاظت کے لئے حسبِ ضرورت و اِسْتِطاعَت چوکیدار، سیکورٹی گارڈ، کیمرے، تالے، کنڈیاں غرضیکہ ہردستیاب طریقہ سے حفاظت کرتا ہے۔ اور پھر اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ انشورنس بھی لے لیتا ہے کہ اگر یہ تمام حفاظتی نظام بھی ناکام ہوگیا تو بھی مال و دولت کے بدلہ میں انشورنس کمپنی معقول رقم ادا کردے۔
اسی طرح لوگ اپنے اہلِ خانہ کی حفاظت کے لیے ہر اقدام اٹھاتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں، ان کے کپڑے لتّے کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی تعلیم وتربیت کے لیئے دُنیا جہان کے مصائب اٹھاتے ہیں۔
ہر شخص کی اپنے ایک خاص حلقہ میں کچھ نہ کچھ عزت ضرور ہوتی ہے اور وہ اپنی اس عزت کو بچانے کے لئے بڑی تگ و دو کرتے ہیں۔ اور اپنی اس عزت کی بچانے یا اپنی ناک کٹنے سے بچانے کے لئے مقدور بھر کوشش کرتا ہے۔
اسی طرح ہر انسان، بلکہ ہر جاندار اپنی جان بچانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ ان کے اندر قدرت نے ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ وہ اپنے جان بچانے کے لئے بغیر سوچے سمجھے کوشش کرتا ہے، اور کبھی بھی آسانی سے موت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتا۔
مگر جب کسی شخص کو ان سب میں سے کسی ایک یا ایک کے مقابلہ میں دوسری چیز مثلاً مال اور زندگی میں سے ایک کو بچانے کے لئے دوسرے کی قربانی دینا پڑھے تو زندگی بچانے کے لئے مال قربان کردیا جاتا ہے۔ آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے پستول یا چھری کے سامنے لوگ اپنی ساری زندگی کی کمائی دے دیتے ہیں اور شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ جان بچ گئی۔


مگر جب اسی زندگی کا سودا عزت یا اولاد کے ساتھ ہوتو لوگ اپنی زندگی دے کر اپنی عزت یا اہل و عیال بچا لیتے ہیں۔ صاحبزداہ عبدالطیف شہید ؓ نے موقع پانے کے باوجود اپنی زندگی دے دی مگر مسیحِ دوراں سے منسوب اپنی عزت بچالی۔
اسی طرح ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ والدین اپنےڈوبتے بچوں کو بچاتے بچاتے خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
یعنی جو شخص حقیقتاً اسلام قبول کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ دین کے لئے، دین کی عزت کے لئے اور اسلام کی ہمدردی کے لئے ان سب چیزوں کی قربانی دینے کے لئے تیار رہے جو اس کے لئے آج سے پہلے مقصدِ حیات تھیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والے، ان کی بیعت کرنے والوں نے ، ان کے غلاموں نے اپنے اس عہد کا کس حد تک پاس کیا ۔


دین کی عزت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی نسل میں سے صاحبزادہ غلام قادر نے جان کی قربانی دی۔ ان کو پتہ لگ گیا تھا دشمنوں کی سازش ہے کہ کہیں حملہ کرکے، اسلحہ اور صاحبزادہ غلام قادر کو وہاں چھوڑ دیں تاکہ دہشت گردی کا الزام جماعتِ احمدیہ پر لگ جائے لہذا صاحبزادہ غلام قادر نے دین کی عزت بچانے کے لئے چلتی گاڑی سے نکلنے کے لئے ہاتھاپائی شروع کردی جس کی وجہ سے وہیں جامِ شہادت نوش فرمایا لیکن جماعت کی عزت بچالی

۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ غلام قادر شہید کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ان کا اغواء لشکر جھنگوی کے چار اشتہاری بد معاشوں نے جن کا سرغنہ لشکر جھنگوی کا ایک نہایت بد نام زمانہ مولوی تھا اور یہ چاروں مغرور مجرم پولیس کو انتہائی خطرناک جرائم کے ارتکاب میں اس درجہ مطلوب تھے کہ ان میں سے ہر ایک کے سر کی قیمت حکومت نے بیس بیس لاکھ مقرر کر رکھی تھی ۔ یعنی بد بخت ملا جو اس کا سر براہ تھا اور باقی پیشہ ور بد معاش جو ان کی ملازمت میں رہتے ہیں۔ ان سب کے سروں کی بیس بیس لاکھ قیمت مقرر کر رکھی تھی۔ اس قسم کے منظم جرائم کے ماہرین سے ہم نے مشورہ کیا ہے۔ ان کی قطعی رائے یہ ہے کہ ان کو شیعوں پر خطرناک حملہ کرنے کے الزام میں ملوث کیا جاۓ کیونکہ محرم کا زمانہ ہے اس لئے دنیا پر یہ ظاہر کرنا تھا اور سارے ملک میں یہ کہہ کے آگ لگانی تھی کہ بے چارے سپاہ صحابہ پر تو خواہ مخواہ الزام آتے ہیں ۔ اصلی بد معاشی جماعت احمد یہ کر رہی ہے اور محرم وغیرہ کے موقع پر جو ملک گیر فسادات ہوتے ہیں ان میں یہ ذمہ دار ہیں۔ اور اگر یہ پتا چل جائے کہ جماعت احمدیہ ملوث ہے تو پھر وہ ملک گیر فسادات بہت زیادہ ہولناک صورت اختیار کر سکتے تھے۔ بے شمار احمدی معصوموں کی جانیں ان کے رحم و کرم پر ہوتیں ۔ جورحم و کرم کا نام تک نہیں جانتے ۔ چنانچہ ماہرین بڑی قطعیت کے ساتھ یہ کہتے ہیں اور ان کے پاس میں کہنے کی وجوہات موجود ہیں ۔ ان کی کارسمیت ان کی لاش کو، وہ کہتے ہیں کہ جلا دینا مقصود تھا۔ جس میں دہشت گردی کے جدید ترین ہتھیار مثالا راکٹ لانچرز گرنیڈ اور گرنیڈ لانچر اور بہت سی کلاشنکوفیں بھر دی جانی تھیں۔ یہ خیال کیوں ان کو آیا اس لئے کہ ایک شخص کے قتل کے لئے اتنا بھاری جدید اسلحہ جو دہشت گردی کے جدید ترین تیار لوگوں کو جو ٹرینڈ آدمی ہیں ان کو دیا جا تا ہے ۔ وہ ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک کار سے ان سارے جدید ترین اسلحہ جات کی بھر مار پکڑی گئی ہے اور ان ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ساری چیز میں ان کی کار میں بھر کر اس کو جلا دینا مقصود تھا لیکن اندر سے وہ چیز یں پکڑی جاتیں اور یہ الزام لگتا کہ سارے پاکستان میں جو خطرناک اسلحہ تقسیم ہو رہا ہے اور بد معاشیاں کی جا رہی ہیں یہ جماعت احمد یہ کروا رہی ہے۔ اور یہ جو چیز یں پکڑی گئیں۔ یہ پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ایک طرف تو اس کو اتفاقا ڈکیتی کا واقعہ بیان کرتی ہے اور دوسری طرف تسلیم کرتی ہے کہ ساری چیزیں ان کے پاس تھیں۔ عام ڈکیتی میں اتنے خطرناک ہتھیاروں کی ضرورت کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ ویسے ہی ناممکن ہے۔
اب غلام قادر شہید کا جو غیر معمولی کارنامہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کو سمجھ آ گئی کہ یہ ایک خطرناک سازش ہے جس کے بد اثرات جماعت پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اس نے بالکل پرواہ نہیں کی کہ اس کو کیا تکلیف دی جا رہی ہے۔ اس کے گلے گھونٹنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کو ہر طرح سے اور خنجرمار کے بھی مارنے کی کوشش کی گئی تاکہ وہ بیچ کے باہر نہ نکل سکے ۔ لیکن بڑی سخت جانی کے ساتھ سارے مصائب کو برداشت کرتے ہوئے وہ ان کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور یہ پسند کیا کہ سڑک پر اس کا خون بہہ جائے تاکہ جماعت احمد یہ اس سازش کے بد اثرات سے محفوظ رہے اور ان کے قبضے میں آ کر دہشت گردی کے منصوبے میں اس کو ملوث نہ کیا جا سکے۔ یہ جد وجہد تھی قادر کی ، جو اللہ تعالی کے فضل سے کامیاب رہی۔


شدید جسمانی اذیت پہنچی ہے مگر بالکل پرواہ نہیں کی ۔ آخر دم تک ان سے لڑتا رہا اور اغواء کا منصوبہ نا کام کر دیا اور سڑک پر باہر نکل کر ان کی گولیوں کا نشانہ بننا قبول کر لیا۔ اس شہادت کا یہ پہلو ایسا ہے جو میں سمجهتا ہوں کہ قیامت تک شہید کے خون کاہر قطره آسمان احمدیت پر ستاروں کی طرح جگمگاتا رہےگا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 16 اپریل 1999ء )


حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 3 اپریل 1987 کو تحریکِ وقفِ نو کا اعلان کرتے ہوئے ایک کہانی سنائی جس سے ثابت ہوتا تھا کہ انسان کے لئے اس کی اولاد ، مال و دولت اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر قیمتی ہوتی ہے۔ حضوررحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’…ہمایوں کے متعلق بھی بابرنے جب یہ سوچا کہ ہمایوں کی زندگی بچانے کے لئے میں خدا کے سامنے اپنی کوئی پیاری چیز پیش کروں تو کہتے ہیں کہ بابر اس کے گرد گھومتا رہا ، اس نے سوچا کہ میں یہ ہیرا جو مجھے بہت پیارا ہے دے دوں۔پھر خیال آیا کہ ہیرا کیا چیز ہے میں یہ دے دوں۔ پھر خیال آیا کہ پوری سلطنت مجھے بہت پیاری ہے میں پوری سلطنت دے دیتا ہوں اور پھر سوچتا رہا۔ پھر آخر اس کو خیال آیا۔ اس کے نفس نے اس کو بتایا کہ تجھے تو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ۔ اس وقت اس نے یہ عہد کیا اور خدا سے دعا کی کہ اے خدا واقعی اب میں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پیاری چیز میری جان ہے۔ اے خدا! تو میر ی جان لے لے اور میرے بیٹے کی جان بچالے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ واقعتا اس وقت کے بعد سے پھر ہمایوں کی صحت سدھرنے لگی اور بابر کی صحت بگڑنے لگی۔‘‘
(خطبہ جمعہ : 3اپریل1987بمقام مسجد فضل، لندن مطبوعہ خطبات طاہر جلد 6صفحہ245)


ایسی اولاد جس کے لئے انسان اپنی ساری دولت ،خوشیاں اور سب سے بڑھ کر جان بھی قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا ، اُس اولاد کو جب کسی باپ کی آنکھوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا جائے اور باپ کو دھمکی دی جائے کہ اگر باپ ، احمدیت سے تائب نہیں ہوتا تو اس کے بیٹے کو جان سے ماردیا جائے گا تو صرف ایمان کی طاقت ہے جو اس قربانی پر بھی راضی ہوجاتی ہے۔ وہ غیرمتزلزل ایمان ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرستادہ مسیحِ دوراں کی بیعت کو اس مضبوطی سے پکڑے رکھتا ہے کی بیٹے کی موت بھی اس ایمان کو رَتی بھر سرکا نہیں سکتی۔


حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو فسادات ہوئے تھے، اُن میں تیس پینتیس احمدی شہید کئے گئے تھے۔ لیکن بعض ایسی حالت میں شہید ہوئے کہ اُنہیں اذیت دے دے کر شہید کیا گیا۔ باپ اور بیٹے کو شہید کیا گیا۔ باپ کے سامنے بیٹے کو اذیت دی جاتی تھی۔ بیٹے کے سامنے باپ کو اذیت دے کر یہ کہا جاتا تھا کہ احمدیت سے تائب ہوتے ہو یا نہیں؟ اور یہ سب کچھ صرف لوگ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہاں کی پولیس بھی سامنے کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی ہوتی تھی۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ : 6 ؍ اپریل 2012ء)


مندرجہ بالا واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ یکم جون 1974ء کو گوجرانوالہ میں مخالفینِ احمدیت نے ایک احمدی گھرانے پر حملہ کردیا ۔ اس وقت گھر میں اس وقت مکرم چوہدری منظور احمد صاحب اور ان کے بیٹے مکرم چوہدری محمود احمد طاہر صاحب تھے۔ ۔ لوگوں نے باپ بیٹے کو مارنا شروع کردیا اور اصرار کیا کہ دونوں احمدیت سے تائب ہونے کا اعلان کردیں۔ دونوں نے انکار کردیا۔ ظالموں نے باپ کے سامنے مارمار کربیٹے مکرم چوہدری محمود احمد طاہر صاحب کو شہید کردیا مگر باپ نے اپنے بیٹے کی زندگی کے لئے کوئی بھیک مانگی نہ ان کے پایہ استقلال میں کوئی لرزش آسکی۔ بعدازاں ظالموں نے چوہدری منظور احمد صاحب کو بھی شہید کردیا۔


شاید ہی کوئی ایسا احمدی ہو جس نے مالی قربانی میں حصہ نہ لیا ہو۔ نہ صرف حصہ لیا ہو بلکہ اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کے نشان نہ دیکھے ہوں۔ اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک ایمان افروز واقعہ سنایا:


’’یہ بھی تنزانیہ کا ہی ہے۔ اس کے بارے میں سموئے (Samuye) کے معلم لکھتے ہیں کہ جماعت میں تین بچے ہیں جو چوتھی جماعت میں پڑھتے ہیں، باقاعدگی سے مسجد میں تعلیمی اور تربیتی کلاسز میں شامل ہوتے ہیں۔ تینوں بچوں کے گھرانے مالی لحاظ سے غریب ہیں۔ کوئی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں۔ گذشتہ ماہ سے یہ آپس میں مقابلہ کرتے تھے اور مقابلے میں چندہ تحریک جدید ادا کرنے کی طرف ان کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ ہر ایک علیحدگی میں اپنا چندہ لاتا تھا اور کوشش کرتا تھا کہ جتنی بھی رقم اس کے پاس موجود ہے وہ ادا کرے اور اس طرح انہوں نے کسی نے پانچ سو، کسی نے چار سو، سات سو شلنگ جو بھی ان کے پاس تھا دیا اور کہتے ہیں کہ جب ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ تم جو یہ چندہ تحریک جدید لاتے ہو، یہ پیسے کہاں سے لے کے آتے ہو؟ ایک نے بتایا کہ اپنی والدہ کے ساتھ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے میں مدد کرواتا ہوں تو جیب خرچ کے طور پر جو پیسے ملتے ہیں اس میں سے چندہ تحریک جدید کے لیے رکھ لیتا ہوں اور کہتے ہیں کہ جب سے میں نے چندہ ادا کرنا شروع کیا ہے ہمیشہ لکڑیوں کے گاہک فوری طور پہ مل جاتے ہیں اور کبھی نقصان نہیں ہوا۔ دوسرے بچے نے بتایا کہ وہ بھی اپنی جیب خرچ میں سے چندے کی رقم علیحدہ کرتا ہے۔ تیسرے بچے نے بتایا کہ اس کے گھر کے قریبی درختوں پر پھل وغیرہ لگتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اپنے کھانے کے لیے پھلوں سے زائد کو بیچ بھی دیتا ہے جس سے حاصل ہونے والی رقم سے چندہ ادا کر دیتا ہے۔ ان تینوں بچوں نے چندے کی برکات کا بھی بیان کیا کس طرح چندہ کی ادائیگی سے ان کی زندگی میں سکون محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو ایمان و اخلاص میں بڑھاتا چلا جائے۔ یہ ہے ایمان جس سے ہمارے بچے بھی مزہ لوٹتے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ نومبر 2021ء)


غیرضیکہ جماعتِ احمدیہ کی تاریخ، ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں غلامانِ مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جان، مال اور اولاد کی قربانی دے دی مگر اپنی بیعت کے الفاظ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ بلکہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے اور بڑے زور آور حملوں سے دشمن کے منصوبوں کو چکنا چور کردیا۔


مئی 2014 میں بھوئیوال ضلع شیخوپورا میں ایک مخالفِ جماعت نے اپنی دکان پر جماعت مخالف اشتہار لگائے جس کی بناء پراس دکاندار کی چند احمدی احباب سے تلخ کلامی ہوگئی۔ اسی دکاندار نے 13 مئی 2014ء کو اشتہار پھاڑنے کا بے بنیاد الزام لگا کر 4 احبابِ جماعت مکرم خلیل احمد صاحب، مکرم مبشر احمد صاحب، مکرم غلام احمد صاحب اور مکرم احسان احمد صاحب کے خلاف تھانہ شرقپور شریف ضلع شیخوپورہ میں ایف ٓئی آر نمبر291 کے تحت، زیر دفعہ 295-A مقدمہ درج کروادیا۔
16 مئی 2014 کو ایک انیس/بیس سالہ طالبِ علم سلیم قادری نے تھانہ شرقپور شریف میں داخل ہوکر، حوالات تک رسائی حاصل کرکے، مکرم خلیل احمد صاحب کو پستول سے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔


اسی اسیری کے دوران مکرم احسان احمد صاحب (جن کے والد صاحب حوالات میں ہی شہید کردیئے گئے تھے) کی والدہ محترمہ اپنے بیٹے کے غم اور صدمہ میں مالکِ حقیقی سے جاملیں اور بیٹے کو نہ تو پیرول پر رہائی ملی نہ ہی وہ اپنی والدہ کا آخری دیدار کرسکا۔ بلکہ اس کو اطلاع بھی ایک ہفتہ بعد ہوئی جب ملاقات کے مقررہ دن احباب سے ملاقات ہوئی۔
مکرم احسان احمد صاحب کی شادی ان کی گرفتاری کچھ عرصہ قبل ہوئی تھی اور گرفتاری کے وقت ان کی اہلیہ امید سے تھیں۔(انھوں نے اپنے بیٹے کو پہلے بار 14 جنوری 2022 کو گلے لگایا۔) اس کیس کے دوران ہی ملزمان کے خاندانوں کو مخالفانہ حالات کی بناء پر ہجرت کرنا پڑی اور اور تاحال یہ خاندان واپس اپنے گھروں میں نہیں آسکے۔
مکرم غلام احمد صاحب کی گرفتاری کے وقت ان کے تین بچوں کی عمریں 8 سے 12 سال تھیں اور یہ تینوں بچے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور تھے۔ اس خاندان کو بھی اپنے عزیز واقارب اور گاوں چھوڑ کر جانا پڑا اورمکرم غلام احمدصاحب کی اہلیہ صاحبہ نے یہ انتہائی مشکل اور آزمائش کا وقت ، بڑے حوصلے ، بہادری اور بغیر کسی شکوہ کے، بڑے صبر کے ساتھ گزارا جو واقعی قابلِ ستائش ہے۔


خاکسار کو ان اسیرانِ راہ مولا سے باری باری تفصیل سے بات کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ان سے جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ان احباب کا ایمان پہلے سے کہیں مضبوط ہوچکا ہے اور خلافت سے ایسا تعلق پیدا ہوچکا ہے جس کا تصور عام آدمی تو کُجا عام احمدی کے بھی مشکل ہے۔ اُن کا ہر فقرہ اس بات سے شروع ہوتا تھا کہ خلیفۂِ وقت کی دُعاوں سے۔۔۔خلیفۂِ وقت کےارشاد کے مطابق ۔۔۔ خلیفۂِ وقت جیسا حکم فرمائیں گے۔۔۔ اس کے بعد وہ ان تمام احبابِ جماعت کے شکرگزار تھے جنہوں نے اس مشکل وقت میں ان کا اور ان کے اہلِ خانہ کا خیال رکھا۔


چنداسنگھ والا ضلع قصور میں ایک ہی احمدی گھرانہ ہے۔ اس خاندان کے سربراہ مکرم محمد حنیف صاحب ہیں اور اس خاندان کو 1998ء میں بیعت کرکے احمدیت میں شمولیت کی سعادت ملی۔اور جس طرح اِس خاندان نے بیعت کی مذکورہ بالا شرط پر عمل کیا ہے وہ بے مثال ہے۔
مکرم محمد حنیف صاحب کی ایک 15سالہ بچی نازیہ حنیف جو دسویں جماعت کی طالبہ تھی اور گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی تھی، چند دن بیمار رہنے کے بعد 8 مارچ 2006 کوبقضائے الٰہی وفات پاگئی اور نزدیکی قبرستان سچیرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
تدفین کے بعد چند شرپسند عناصر نے لوگوں کو بھڑکایا کہ ہمارا قبرستان ناپاک ہوگیا ہے۔ گاؤں کے مولوی نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا کہ قبرستان کے دیگر مرحومین نے خواب میں میرے پاس آکر شکایت کی ہے لہٰذا مرحومہ کی میت کو قبرستان سے نکالا جائے۔ مرحومہ کے خاندان نے جوان بچی کی وفات کا صدمہ تو پسِ پشت ڈال دیا اور یہ فکر ستانے لگی کہ کہیں قبر کی بے حرمتی نہ ہو۔ گاؤں میں شدید کشیدگی کا ماحول طاری ہوگیا تھا۔
بالآخر 16مارچ 2006 کو رات کے وقت بھاری تعداد میں پولیس نفری گاؤں پہنچی اور مکرم محمد حنیف صاحب اور اہلِ خانہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ان کا موبائل فونز چھین لیا تاکہ کہیں رابطہ نہ کرسکیں۔ نیزان کو حکم دیا کہ وہ فوراً اپنی بیٹی کی قبرکشائی کرکے نعش نکال کرکہیں اور لے جائیں۔ انکار پر پولیس مکرم محمد حنیف صاحب کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ بالآخر پولیس مکرم محمد حنیف صاحب اور ان کے دس سالہ بیٹے کو قبرستان لے گئی۔ گاؤں کے تقریبا 200 افراد بھی قبرستان پہنچ گئے۔
پولیس نے دونوں باپ بیٹے کو جبراً حکمادیا کہ قبر کھود کر نعش نکالی جائے۔ مکرم محمد حنیف صاحب اور ان کا 10 سالہ بیٹا قبرکشائی کرتے رہے اور لوگ تماشہ دیکھتے رہے اورقہقہے لگاتے رہے، ایک بھی آواز ایسی نہ اٹھی جس سے ندامت یا شرمندگی کا اظہار کیا ہو۔ اس سے بڑی قیامت کیا ہوگی کہ ایک جوان بچی کی نعش، وفات کے کئی روز بعد، باب اور بیٹے کے ہاتھوں تماشبینوں کے سامنے نکلوائی جائے۔
ایک پولیس اہلکار سے آخر نہ رہا گیا اور اس نے اونچی آواز سے تمام حاضرین کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’آپ لوگوں کو جو اعتراض تھا وہ دور ہوگیا ہے اب تو آپ کو ٹھنڈ پڑگئی ہے۔‘‘
نعش کی حالت بالکل ویسی ہی تازہ تھی جیسے تدفین کے دن تھی اور ایک خاص قسم کی خوشبو تھی جس نے ماحول کو گرمادیا تھا۔ پولیس کی نگرانی میں نعش کو قصور شہرلایا گیا اورتدفین عمل میں آئی۔


پوری دُنیا میں اسلام کے خلاف مختلف طریقوں سے حملے جاری ہیں۔ یہ حملے جنگ و جدل کے میدانوں میں بھی ہیں اور زبانی، تقریری اور تحریری بھی۔ اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو اس میں ایک اور ہی تیزی آگئی ہے۔ جماعتِ احمدیہ کے پاس کوئی دُنیاوی حکومت نہیں ہے جس کی افواج دشمنوں کے ان جنگی حملوں کو جو وہ سیاسی بہانوں سے کرتے ہیں، روک سکے۔ مگر دشمنوں کے اسلام پر ہونے والے ہر تقریری یا تحریری حملے کو روکنے کے لئے پوری دُنیا کے احمدی، نظامِ جماعت کے تحت یا حسبِ موقع انفرادی طور پر اسلام کا دفاع کرنے کے لئے سب سے پہلے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہالینڈ میں شائع ہونے والے خاکے ہوں، کینیڈا میں قرآن کی بے حرمتی ہو یا ہندوستان میں کی گئی توہینِ رسالت ہو، یہ احمدی ہی ہیں جو اسلام کی ہمدردی اور دفاع کے لئے آگے آئے اور ان دشمنان کا جواب تقریر، تحریر، سوشل میڈیا، ٹی وی، اخبارات، کُتب، ویڈیوز، غرضیکہ ہر دستیاب طریقہ سے تسلی بخش دیا گیا۔


احمدی مسلمانوں کی جان، مال، وقت، عزت اور اولاد کی قربانیوں کی فہرست بہت طویل ہے، جن پر بے شمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور یہ قربانیاں ابھی جاری ہیں اور ہمیشہ جاری رہیں گی۔ ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دُعا ہے کہ وہ ہمیں بیعت کی ہرشرط پر لفظی اور معنوی لحاظ سے پورا اترنے کی توفیق عطاء فرمائے اور ہم سب مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت حقّہ، جو کہ حقیقی اسلامی خلافت ہے، کے وفادار مبائع رہیں۔