پاکستان میں مسجد پر دہشت گردوں کا حملہ: مسجد شہید

ضلع سرگودھا کی تحصیل بھیرہ کے ایک گاؤں گھوگھیاٹ میں 16 اور 17 اپریل 2023 کی درمیان شب دہشت گردوں نے ، پولیس کی موجودگی میں1905 میں تعمیرکردہ مسجد پر حملہ کرکے اس کے منیار گرادئے اور اسے سخت نقصان پہنچایا۔
انا للہ واناالیہ رٰجعون

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پولیس کی موجودگی میں احمدیہ مسجد گھوگھیاٹ پر حملہ کیا گیا اور میناروں اور گنبدوں کو توڑا گیا۔

یہ مسجد کافی قدیم ہے اور یہاں بسنے والے احمدیوں کے مقامی مکینوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔

حملہ آور کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں یہ بات پولیس بھی جانتی ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ پولیس ان لوگوں کے زیر اثر ہے اور ان کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔

احمدیہ کمیونٹی کی طرف سے پولیس کو درخواست دی جا رہی ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے لیکن خدشہ ہے کہ درخواست پر عمل نہیں کیا جائے گا اور اس پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔

سرگودھا کی گھوگھیاٹ میں واقع احمدیہ مسجد کے باہر پولیس نے پہلے ہی ایک معاہدے کے تحت آہنی بورڈ لگا دیا تھا جس پر تحریر تھا ’یہ مسلمانوں کی مسجد نہیں بلکہ قادیانی جماعت کی عبادت گاہ ہے‘، پولیس کے اس عمل پر احتجاج بھی کیا گیا تھا کہ پولیس کو ایسا کرنے کا کوئی آئینی اور قانونی اختیار حاصل نہیں ، اس کے باوجود پولیس کی نگرانی میں شرپسندوں نےاحمدیہ مسجد پر حملہ کرکے اس کی بے حرمتی کی اور تھوڑ پھوڑ کی۔

سرگودھا پولیس کو احمدی کمیونٹی کے خلاف جو درخواست دی گئی اس میں یہ الزام لگایا گیا کہ عبادت گاہ کے اندر معلم بچوں کو قرآن پڑھا رہا تھا۔

‘‘قرآن پاک کی تعلیم سے روکا تو احمدی معلم غصے میں آ گیا’’

، گھوگھیاٹ کی مرکزی جامع مسجد کے امام قاری خلیل الرحمٰن نے پولیس کو جو درخواست دی ہے اس میں الزام لگایا گیا کہ قادیانی عبادت گاہ کے اندر بچوں کو قرآن پڑھایا جا رہا تھا جس کی تعلیم وہ شرعی و قانونی طور پر نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ موقع پر موجود پولیس گارڈ کو اس بارے آگاہ کیا گیا تو اس نے معلم کو منع کیا ، مگر معلم باز نہ آیا اور اس نے عبادت گاہ سے باہر آکر مبینہ طور پر مجھے قتل کی دھمکیاں دیں۔

سرگودھا ضلعی انتظامیہ کے ترجمان نے موقف اختیار کیا ہے کہ یہ ایک حساس ایشو ہے جوکہ قبل ازیں ڈسٹرکٹ امن کمیٹی کے اجلاس میں زیرِ بحث آ چکا ہے اور ضلعی امن کمیٹی نے ہی متفقہ طور پر احمدیوں کی عبادت گاہ کے باہر بورڈ لگانے کی منظوری دی تھی۔