It’s Your Ship

حاصلِ مطالعہ

محمد سلطان ظفر

                ڈی مائیکل ابراشاف   امریکی بحریہ میں ترقی کرتے کرتے  کیپٹن بنے تو 1997 میں   ان کے سپرد جو  سب سے  پہلا جہاز ہوا اس کا نا’’م یو ایس ایس بین فولڈ‘‘ تھا ۔ یہ جہاز  امریکی بحریہ میں ایک جدید جہاز شمار ہوتا تھا جو دورِ عصر کے جدید ترین آلات سے مزین تھا لیکن اس کی وجہ شہرت اس کی کامیابیوں سے زیادہ ناکامیاں تھیں۔ بڑے بڑے سخت مزاج کمانڈر بھی اس کے عملے کی بدمزاجی، نالائقی اور سستی کو دور نہ کرسکے۔  کیپٹن ابراشاف نے اس جہاز کے عملہ سے بدتر عملہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لیکن اس نے عہد کہا کہ وہ اس جہاز کو امریکی بحریہ کا بہترین جہاز بنائے گا۔ ۔۔۔ اور پھر چشمِ فلک نے یہ دیکھا کہ USS Benfold امریکی بحریہ کا بہترین جہاز قرار پایا۔

کیپٹن ابراشاف نے اپنے اس سفر کو کتابی شکل میں شائع کیا جس کا نام  ’’ It’s Your Ship‘‘ ہے۔ یہ کتاب 2002 میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔ اب تک اس کی 1.1 ملین سے زائد کاپیاں فروخت  اور  ترجمہ آٹھ زبانوں میں ہوچکا ہے۔

               دُنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے سربراہ اور لیڈرز اس کتاب سے اِسْتِفادَہ کرچکے ہیں۔نیز ان کمپنیوں میں مینجرز اور سپروائزر کو ٹریننگ کے دوران اس کتاب کا مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ 

               کیپٹن ابراشاف نے سب سے پہلی بات یہ نوٹ کی کہ سابقہ کمانڈرز نے ہر کام قواعد و ضوابط کی اندھادھند تقلید کرتے ہوئے ، سختی سے کرنے کی کوشش کی تھی۔  اس نے فیصلہ کیا کہ وہ سابقہ لیڈروں کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے نئے طریقہ کار پر چلے گا۔ ایسے طریقہ کار پر جو ہوں گے تو قوانین کے اندر مگر عمل مختلف ہوگا۔

               کیپٹن ابراشاف نے   جہاز کے تمام تین  سو سے زائد عملہ سے انفرادی ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں اس نے ہر فرد کی خامیوں اور خوبیوں کا اندازہ لگانے کی کوشش کی اور اس کے مطابق ان کو کام تضویض کیے۔ اور اس کام میں کئی مہینے لگ گئے۔  اس نے اپنے عملہ کو کھلی چھٹی دے دی کہ   وہ تضویض کئے گئے امور اپنی مرضی کے طریقہ کار کے مطابق  سرانجام دے سکتے ہیں۔

                 اس کا نعرہ تھا کہ “It’s your ship.”

               اب اس کا عملہ ہفتوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا کام گھنٹوں میں کرنے لگا۔ جہاز کا کریو کام میں کسی رکاوٹ آنے پر احکامات کا انتظار کرنے کی بجائے اس رکاوٹ کو دور کرنے میں مشغول ہوجاتا۔ ہر کام کو کرنے کے مختلف طریقے ڈوھنڈے جانے لگے۔

               کیپٹن ابراشاف نے عملہ کے افراد کو بتائے بغیر ان کے اہلِ خانہ کو خطوط لکھے کہ کس طرح یہ نوجوان دن رات محنت کرکے ملک کی خدمت کررہے ہیں۔ جب ان کے اہلِ خانہ نے ان افراد کو بتایا کہ  وہ ان پر کتنا فخرکررہے ہیں تو پورا عملہ کیپٹن ابراشاف پر ہر وقت قربان ہونے کے لئے تیار رہنے گا۔  

               لیکن  کیپٹن ابراشاف کا ہدف کچھ اور ہی تھا۔ اس نے مختلف  شعبوں  کے لئے جو ماہر ٹیمیں تعینات کی ہوئی تھیں، ان کے بیک اَپ کے لئے دوسرے جوانوں کو ٹریننگ دینا شروع کردی۔ اور ایک وقت ایسا آیا ہے کہ بیک اَپ ٹیمیں ، حقیقی ٹیمیں کے برابر آگئیں۔ کیپٹن نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس نے تیسرے لیول کے عملہ کو بھی  انتہائی پرفیشنل ٹریننگ دے کر ان ٹیموں کے برابر لاکھڑا کیا۔ اور جب امریکی نیوی کی سالانہ مشقوں کا مقابلہ شروع ہوا تو کیپٹن ابراشاف نے پوری بحریہ میں یہ اعلان کرکے ہلچل مچادی کہ ان مشقوں میں ان کے پہلے یا دوسرے لیول کے جوان شامل نہیں ہوں گے بلکہ تیسرے لیول کے جوان مقابلہ کریں گے۔

               اور     USS Benfold  نے یہ مقابلہ جات واضح برتری کے ساتھ  جیت لئے۔

               اس کتاب سے جو چھ سبق ہم سیکھ سکتے ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔

کیپٹن ابراشاف کے قول و فعل میں مطابقت تھی۔ وہ جو دوسروں کو کہتا تھا وہی خود کرتا تھا۔

وہ اپنے ہر جوان کی ہربات پوری توجہ سے سنتا تھا۔ ان کی ہر تجویز  پر پوری توجہ دیتا تھا، اس پر بحث کرتا تھا اور اگر قابلِ عمل ہوتی تو ہرقیمت پر اسے اپناتا تھا۔ اور اگر نہیں اپنا سکتا تھا تو اس کی وجہ بتاتا تھا۔  یہ جوان جب اپنے تجویز کردہ امور پر عملدرآمد کرتے تو انہیں احساس رہتا تھا کہ یہ ان کا اپنا کام ہے اسے ہر حال میں کامیاب کرنا ہے۔

کیپٹن ابراشاف اپنے احکامات پر عملدرآمد کرواتے ہوئے ان کی توجیہہ بھی واضح کرتا تھا۔ کون سا کام کیوں کیا جارہا ہے؟ جب تک عام کارکن کے ذہن میں اس کا جواب نہیں سماتا اس وقت تک وہ اس کام میں اپنی تمام توانائیاں صرف نہیں کرتا اور نہ ہی کرسکتا ہے۔ کیپٹن کا مزید کہنا تھا کہ  صرف حکم دینا ہی کافی نہیں، آپ کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آپ کے جوانوں نے اس حکم کو سمجھا کیسے ہے!  اس کے مقصد کو سمجھا کیسے ہے!  اس کے نتیجہ کو سمجھا کیسے ہے!

کام کو توقع سے بہتر کرنا بھی ایک عام خوبی ہونا چاہئے۔ عموماً لوگ قواعد و ضوابط کے لگے بندھے طریقے سے  کام کرتے ہیں تاکہ  ناکامی کی صورت میں کسی قسم کی تعزیر سے بچ سکیں۔   کام کروانے اور کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ بہتر طریقہ سے کام کرنے کےبارہ میں سوچیں  نیز  جدید وسائل سے حتی المقدور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔  عام طریقہ کار کے مطابق کام کرنے سے نتیجہ بھی عام ہی نکلے گا۔

کیپٹن ابراشاف کا کہنا تھا کہ میں ہرکام کرنے سے پہلے سوچتا تھا کہ اگر اس کام کو کل ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے صفحہ اول پر جگہ ملے تو یہ میرے لئے فخر کی بات ہوگی یا شرمندگی کی۔ یعنی  یہ کام جو میں کرنے لگا ہوں آیا درست ہے یا غلط۔

کیپٹن ابراشاف  اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بہتر کام کرنے کے لئے آپ کو بہرحال مشکل فیصلے اور رسک لینے پڑھتے ہیں۔ لیکن یہ رسک اندھادھند نہیں ہونے چاہیں بلکہ بڑھے حساب کتاب سے لینے چاہیں۔ اس بات کو ہرحال میں مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ اگر آپ ناکام ہوتے ہیں تو ’’کیا اور کتنا نقصان‘‘ ہوگا۔ اگر نقصان قابلِ برداشت ہے تو  بلاجھجک رسک لے لیں۔

               کیپٹن ابراشاف کی یہ کتاب نہ صرف پروفیشنل لوگوں کے لئےبلکہ کسی بھی  تنظیم کے عہدیداروں کے نہایت مفید ہے۔ اس کتاب کا اندازِ بیان  اس نوعیت کی دیگر کتابوں سے قطعی مختلف ہے اسی لئے جو لوگ سفرنامے، ناول اور کہانیاں پڑھنے کے شوقین ہیں ان کے ذوق کے لئے بھی یہ یکساں دلچسپ کتاب ہے۔ یہ کتاب کسی دفتری مینوئل کی بجائے  آپ بیتی کی شکل میں ہے جس میں قسم قسم کے کردار، کہانیاں، تجسس اور واقعات قاری کو اِسے ایک ہی نشست میں ختم کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔