تعمیرِ ربوہ

محمد سلطان ظفر

                        کامیاب قوموں نے مشکل وقت میں مصائب کا مقابلہ ہمیشہ مردانہ وار کیا ہے اور تکلیفوں کو خود پر حاوی ہونے کی بجائے نامساعد حالات میں بھی نئی نئی جہتوں کو دریافت کیا ہے۔

            1947ء میں برصغیرکی تقسیم کے بعد ہندوستان اورپاکستان الگ الگ آزاد ریاستوں کے طورپر دُنیا کے نقشہ پر اُبھرے تو موجودہ پاکستان کے علاقوں میں رہنے والوں ہندؤں اورسکھوں نے ہندوستان اور ہندوستان کے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں نے پاکستان نقل مکانی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اوراس نقل مکانی کے دوران، دونوں اطراف میں ظلم و ستم کے جو شیطانی کھیل کھیلے گئے وہ اب تاریخ کے ایک سیاہ باب کے طورپر یاد کئے جاتے ہیں۔

            اس بربریت کے موقع پر جماعت احمدیہ کا ازلی مرکز قادیان بھی حملہ آوروں کا نشانہ بنا اور بہت سے احمدیوں نے اپنے روحانی مرکز کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ تکالیف کا یہ دور کئی سالوں پر محیط ہے اور اس کا مختصر احوال بیان کرنے کے لئے بھی بہت طویل مضمون چاہیے۔

            اس تکلیف دِہ صورتحال میں، الٰہی حکم کے تحت، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قادیان سے ہجرت کرکے عارضی طورپر لاہورمیں بسیرا کیا اور پھر ایک صحرا میں، ایک نیاشہر، ایک نیا مرکز ’’ربوہ‘‘ تعمیر کیا۔

            ربوہ کی تعمیر ایک معجزہ سے کسی طرح سے کم نہیں۔ جدید تاریخ میں بہت کم شہرایسے ہیں جو ایسی گہری پلاننگ سے بسائے گئے ہوں اور ایسے شہروں میں ، اتنے قلیل سرمایہ سے تعمیر ہونے والا شہر شاید کوئی بھی نہیں ہے۔

            تعمیر ِ ربوہ کی داستان بہت لمبی، ایمان افروزاورحوصلہ مند ہے۔ اور حقیقتاً تو یہ داستان 1941ء سے شروع ہوتی ہے جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خواب میں دیکھاتھا کہ آپؓ احمدیوں کو اکٹھا کرکے پہاڑوں کے درمیان، بہتے پانی کے ساتھ، سرسبزوشاداب زمین پرآباد کررہے ہیں۔

            پاکستان ہجرت کے بعد عارضی رہائش لاہور میں رکھی گئی اور مستقل مرکز کے لئے ستمبر 1947ء میں مندرجہ ذیل تین جگہیں زیر غور آئیں:

ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ

کڑانہ ضلع سرگودھا

لبِ چناب موجودہ ربوہ

            ننکانہ صاحب سے متصل جگہ خریدنے تجویز اس لیے پیش کی گئی کہ چونکہ یہاں پر سکھوں کے مذہبی مقامات ہیں لہذا ہندوستان کے رہنے والے سکھ قادیان پر حملہ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں گے کہ جواباً ننکانہ صاحب میں کارروائی ہوسکتی ہے۔تاہم قانونی دشواریوں کے پیش نظر یہ جگہ خریدی نہ جاسکی۔

            حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فیصل آباد سرگودھا روڈ پر واقع کڑانہ کی پہاڑیوں کے دامن میں مجوزہ جگہ کا بھی بنفسِ نفیس جائزہ لیاتاہم اس کو بھی کئی وجوہات کی بناء پر مسترد کردیا گیا ۔ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ جگہ سیلاب سے محفوظ نہ تھی۔

            موجودہ ربوہ کی زمین پہاڑوں کے دامن میں اور دریا کے کے کنارہ پر تھی۔ پانی عمومی طورپر دستیاب نہیں تھااورمیٹھا بھی نہیں تھا، سبزہ کا تو نام و نشان بھی نہ ملتا تھا۔ماضی میں کئی لوگوں نے اس جگہ کو آباد کرنے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔ ایک ہندوکا تمام سرمایہ اس کی آبادکاری میں ضائع ہوگیا اور وہ اس صدمہ سے ذہنی توازن کھوبیٹھاتھا۔

            تاہم حضورؓ نے باریک بینی اس جگہ کا جائزہ لیا نیز ربوہ سے دوکلومیٹر دور احمدنگر (جو خاکسار کاجائے پیدائش  بھی ہے) بھی تشریف لے گئے اور وہاں کے زمینداروں سے، ربوہ کی مجوزہ جگہ کے بارہ میں ،خصوصاً سیلاب کے پانی کی رسائی کے بارہ میں سوالات کیے۔ ان زمینداروں نے حضورؓ کو بتایا کہ اس جگہ پر سیلاب کے پانی کے پہنچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جس درخت کے نیچے یہ سب احباب تشریف فرما تھا، اُس کی شاخوں کی طرف اشارہ کرکے کہا گیا کہ اگر سیلاب کا پانی ان شاخوں تک پہنچ جائے تو پھر ربوہ کی زمین بھی سیلاب کی زَد میں آسکتی ہے۔

            اس تفصیلی معائنہ کے بعد حضرت خلیفۃ المیسح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ جگہ خریدنے کا فیصلہ کیا اور انتظامیہ نے حضورؓ کی ہدایت کے مطابق حکومت کو اس جگہ کے حصول کے لیے درخواست دے دی۔لیکن کئی سرکاری افسروں کی دانستہ اورغیردانستہ کوششوں نیز مخالفینِ جماعت اورکئی اخبارات میں چھپنے والی بے بنیاد خبروں کی بناء پر اس درخواست کی منظوری میں کئی ماہ ضائع ہوگئے۔ تاہم ضلع جھنگ کے ڈپٹی کمشنر نے 11جون 1948ء کو منظوری دیتے ہوئے یہ جگہ صدرانجمن احمدیہ کے نام منتقل کردی۔

            حصولِ زمین کے فوراً بعد حضورؓ نے ربوہ کی آبادی کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی اوراُسے ہدایت فرمائی کہ وہ آبادکاری کے لئے فوری طورپر کارروائی کریں۔ حضورؓ نے کمیٹی کی راہنمائی کے لیے ابتدائی طورپر کئی  ہدایات بھی جاری فرمائیں۔ جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

٭        بہشتی مقبرہ اور قبرستان عام کی تعمیر

٭        جماعتی اداروں کی تعمیر

٭        لڑکوں اورلڑکیوں کے اسکولوں اورکالجوں تعمیر

٭        ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تعمیر

٭        پانی کے لئے ٹیوب ویل لگایا جائے

٭        بجلی کے حصول کے لیے درخواست دی جائے

٭        مٹی کے تیل کے کوٹہ کی درخواست دی جائے

٭        ایک سال کی ضرورتوں کے غلہ خرید لیا جائے

٭        دودھ کی فراہمی کے لیے احمدنگر میں بھینسیں پالی جائیں

٭        قادیان کے احمدیوں نیز ایسے لوگوں کو جو سلسلہ کے مخالف نہ تھے، کو دس دس مرلہ کی جگہ مکان بنانے کے لیے مفت دی جائے۔ تاہم ان لوگوں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ چھ ماہ کے اندر اپنے مکان کی تعمیر شروع کردیں اورتعمیر شروع کرنے سے اگلے تین مہینوں کے اندراندر اس کی تعمیر مکمل کرلیں۔

٭        اس زمین کی دوتہائی قیمت صدرانجمن احمدیہ اورایک تہائی قیمت تحریک جدید ادا کرے تاکہ دونوں انجمنیں اس کی مالک ہوں۔

٭        کسی دکان کی عمارت پرائیویٹ نہ ہوگی۔ اوردکان کی عمارتیں کلی طورپر سلسلہ کی ملکیت ہوں گی اورکرایہ پر دی جائیں گی۔

٭        کسی کو گھر پر تجارت کرنے یا مکان کے کسی حصہ کو دکان کے طورپر استعمال کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

٭        تحقیق کی جائے کہ کس قسم کے درخت اس زمین میں لگائے جاسکتے ہیں

            حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی غیرمعمولی فراست اور تجربہ کی روشنی میں یہ پیش خبری بھی بیان فرمائی کہ:

’’احمدیت نے بہرحال بڑھنا ہے۔ یہاں کی زمینوں کا بھی وہی حال ہوگا جو قادیان کی زمینوں کا ہوا۔ یہ جگہ پاکستان کا مرکز رہے گی اورقریب کے مرکزوں سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ پس جو شخص زمین لینا چاہئے اُنہیں جلد ی کرنی چاہئے۔‘‘

(الفضل 28ستمبر1948ء)

            حضورؓ نے زمین کی عام فروخت کے لیے مختلف دورانیے مقررفرمائے اور ہر دورانیہ کے دوران زمین کی قیمت مختلف مقرر کی۔مثلاً 15اکتوبر1948ء تک پانچ سو کنال زمین فروخت کی جائے گی اور ان پہلے پانچ سو کنال زمین کی قیمت ایک سوروپے فی کنا ل ہوگی جبکہ اس کے بعد تین سوکنال کی قیمت دوسورپے فی کنال مقرر کی۔

            اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے احمدیت کے شیدائیوں نے اس جگہ کو  فوری طورپر خریدنا شروع کردیا۔اورتمام پلاٹس مقررہ وقت کے اندراندر فروخت ہوگئے۔

            بعض قومی اخبارات نے جماعت احمدیہ کی بے حد تعریف کی کہ جو کام حکومت کو کرنا چاہیے تھاوہ ایک جماعت خود ہی کررہی ہے۔ ان اخبارات نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ بھی جماعت احمدیہ کے نقشِ قدم پر چل کرمہاجرین کے لیے ایسے ہی شہربسائے۔

            معاندین احمدیت کے لیے جماعت کا احسن رنگ میں ذکر، باعث تکلیف بنا اور اُنہوں نے تعمیرربوہ کی کوششوں میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کردیں۔ مختلف سرکاری افسروں سے مل کر زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کروانے کی کوشش شروع کردی گئی۔ اس سلسلہ میں اخبارات میں جھوٹی اورمن گھڑت خبریں بھی شائع کروائی گئیں۔ الاٹمنٹ کی منسوخی کی یہ کوشش تو ناکام ہوگئی البتہ حکومتی افسران نے طے شدہ معاہدہ میں یکطرفہ طورپر تبدیلیاں کرکے جماعت کے لیے کافی دقتیں پیداکردیں۔ مثلاً یہ کہ 18ماہ کے اندراندر تمام گھروں کی تعمیر مکمل ہوجانی چاہیے۔

            ربوہ کی تعمیر کے دوران سب سے بنیادی مسئلہ پانی کی عدم دستیابی تھا۔ پورے علاقہ میں صرف ایک نلکا تھا جو ربوہ اوراحمدنگر کے درمیان تھا۔ ماضی بعید میں بھی پانی کی عدم دستیابی ہی یہاں پر بستیاں بسانے کی راہ میں رکاوٹ رہی تھی۔ لمبی ، مشکل اور تکلیف دہ کوششوں کے بعدجامعہ نصرت والی جگہ سے گدلا پانی نکلا۔ تاہم کچھ عرصہ کے بعد چند اورجگہوں سے بھی پانی مل گیالیکن یہ عمومی ضرورت کے لیے بھی انہتائی کم تھا۔فیصل آباد میں اس پانی کا کیمیائی تجزیہ کیا گیا تو اسے پینے اورگھریلو استعمال کے لیے ناقابل قرار دیا گیا۔

            اپریل 1949ء کے جلسہ سالانہ میں ٹینکروں کے ذریعہ پانی کا مناسب انتظام کیاگیا۔ جلسہ کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیم غنودگی میں الہامیہ کیفیت میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا:

جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب
پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہادیا

حضورؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں ’’جاتے ہوئے‘‘ سے کیا مراد ہے۔ اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہوسکا لیکن جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑاتھا اسی طرح اللہ تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیداکردے گا کہ جس سے ہمیں پانی بافراط میسر آنے لگے گا۔ اگر پانی پہلے ہی مل جاتا تو لوگ کہہ دیتے کہ یہ وادی بے آب و گیاہ نہیں یہاں تو پانی موجود ہے۔ پھر اس وادی کے بے آب و گیاہ کہنے کے کیا معنی؟ اب ایک وقت تو پانی کے بغیر گذرگیا اورباوجود کوشش کے ہمیں پانی نہ مل سکا۔ آئندہ خداتعالیٰ کوئی نہ کوئی صورت ایسی ضرورپیداکردے گا کہ جس سے ہمیں پانی مل جائے۔

            حضورؓ کی کوشش تھی کہ تعمیر کا کام جلد سے جلد مکمل ہوجائے۔ شروع میں عارضی عمارتوں کی تعمیر شروع کی گئی۔ ان عمارتوں کے لیے خام اینٹوں کی ضرورت تھی۔ پانی اورمزدوروں کی کمی کی وجہ سے اینٹیں تیارکرنا مشکل تھا لہذا منتظمین کی طرف سے حضورؓ کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ خام اینٹیں فوری طورپر چینوٹ سے حاصل کرلی جائیں۔ مگر حضور نے اس تجویز کو نامنظورکرتے ہوئے فرمایا:

’’ہرگز نہیں۔ میں کوئی عُذر نہیں سنوں گا۔… جس طرح بھی ہوروزانہ پچیس ہزاراینٹ تیارہونی چاہئے۔‘‘

 حضورؓ کی توجہ اورنگرانی کی برکت سے بعض دفعہ پچاس ہزاروزانہ تک اینٹیں تیارہونے لگیں۔

            تعمیر کے اس مرحلہ پر حضورؓ نے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا اور تمام ناموراخبارات کو دعوت دی۔ 7نومبر 1948ء کو ہونے والی اس پریس کانفرنس میں کئی اخبارات کے چیف ایڈیٹرزاور نامی صحافی شامل ہوئے۔ اس پریس کانفرنس کے لئے حضور ؓ لاہورسے ربوہ تشریف لے گئے ۔

            اس پریس کانفرنس کا تفصیلی احوال کئی اخبارات نے شاندارانداز میں شائع کیا۔ جن میں اخبار’’احسان‘‘ لکھتا ہے۔

’’لاہور ۔8نومبر۔  جماعت احمدیہ کے امیر مرزابشیرالدین محمود احمد کی دعوت پر مقامی اخبارنویسوں کی ایک پارٹی جماعت احمدیہ پاکستان کے نئے مرکز ربوہ کو دیکھنے گئی جو لاہورسے کوئی ایک سَو میل اورچنیوٹ سے پانچ میل کے فاصلہ پر دریائے چناب کے غربی کنارے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے دامن میں ایک بے آب وگیاہ غیرمزروعہ اورناقابل آبادی قطعہ زمین پر آباد کیا جارہاہے۔ زمین کا یہ ٹکڑاجو ایک ہزارچونتیس ایکڑ پر مشتمل ہے اورجسے حکومت سے خریدلیاگیا ہے ان دونوں جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے۔ یہاں ربوہ نام سے امریکی طرزپر ایک جدید ترین شہرزیرتعمیر ہے جس کی لاگت کا ابتدائی اندازہ کوئی پچیس لاکھ روپے کے قریب لگایاگیا ہے۔ جائے وقوع کے لحاظ سے ربوہ لائل پوراورسرگودھا کے عین وسط میں واقع ہے۔ اس کے تین طرف تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں قدرتی ڈیفنس کے طورپر کھڑی ہیں لیکن جنوب مغربی سمت سے یہ کھلا پڑا ہے اور اس کا سلسلہ دورتک مزروعہ زمین سے ملتا چلاگیا ہے۔ ریلوے لائن اورپختہ سڑک اس قطعہ زمین کے پاس سے گذرتی ہیں۔ لیکن زمین میں مادہ شورہونے کی وجہ سے کئی کئی میل تک آبادی کا کہیں نام ونشان نہیں۔ صبح نوبجے روانہ ہوکر اخبار نویسوں کا قافلہ کوئی تین گھنٹے میں ربوہ پہنچ گیا جہاں سینکڑوں رضاکارخیمے وغیرہ نصب کرنے میں مصروف تھے۔ …

            … ربوہ پہنچنے پر مرزا بشیرالدین محمود احمد نے اخبارانویسوں کو بتایا کہ انہوں نے نئے شہر کی تعمیر کا نقشہ امریکی طرز پر بنوایا ہے اوریہ شہر پاکستان بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا شہر ہوگا۔ اس میں سکول، کالج، ہسپتال، واٹرورکس اوربجلی گھر، غرضیکہ ایک جدید طرز کے شہرکے تمام لوازمات مہیا کئے جائیں گے۔ ریلوے سٹیشن اورڈاکخانہ، تارگھرکھولنے کے لئے حکومت سے اجازت حاصل کرلی گئی ہے اوربہت جلد ان کی تعمیر کاکام شروع ہوجائے گا۔ مرزاصاحب نے بتایا کہ وہ خشک اوربنجرپہاڑیوں کو سیرگاہوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ تاکہ ان پہاڑیوں پر مختلف قسم کے پھول اورسبزی وغیرہ اگانے سے ایک تو موسمِ گرما میں اس نئے شہر کے لوگ گرمی کی شدت سے محفوظ رہ سکیں اور دوسرے ان پہاڑیوں پر سیروتفریح کا لطف بھی اٹھایا جاسکے۔ آپ نے اخباری نمائندوں کے سامنے ربوہ نام کی تاریخی اہمیت و مذہبی حیثیت کو اپنے الہامات اوررؤیا کی روشنی میں واضح کیا اورامید ظاہر کی کہ وہ ایک سال کے اندراندر نئے شہر کی تعمیر کے کام کو مکمل کرلیں گے۔ مرزا صاحب نے بتایا کہ نہ صرف مغربی پنجاب بلکہ مغربی پاکستان میں اس قسم کے کئی بنجر اورغیرآباد علاقے بے مصرف پڑے ہیں۔ اگر مشرقی پنجاب کے بڑے بڑے شہروں مثلاً جالندھر، امرتسر اورلدھیانہ کے مسلمان اپنی سابقہ جماعت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اوراپنی صنعتوں کو کوآپریٹو (Cooperative)رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے لازم ہے کہ وہ ربوہ کی قسم کے نئے قصبوں کو بسائیں ویسے بھی کئی دفاعی ضرورتیں اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہمارے صنعتی علاقے سرحد سے کافی دورہوں اور ان کی ڈیفنس کا کوئی قدرتی انتظام ہو۔ صرف اسی صورت میں ہم اطمینان سے بیٹھ کر اپنی صنعتوں کو ترقی یافتہ ممالک کے معیار پر لاسکتے ہیں۔

                        آپ نے بتایا کہ یہاں ربوہ اورسرگودھا جانے والی سڑک پر کوئی سترہ اٹھارہ میل کے فاصلہ پر پہاڑیوں کے دامن میں تین چار(ہزار) ایکڑ پر مشتمل ایک سرکاری قطعہ زمین پڑاہے۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ اگرلدھیانہ یا امرتسر کے کاریگر اس قطعہ زمین کو حاصل کرکے یہاں ایک صنعتی شہرآباد کرنا چاہیں تو حکومت سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ اخبارنویسوں کے اشتیاق پر مرزا صاحب نے اس قطعہ زمین کے دورہ کا بھی پروگرام بنایا چنانچہ تیسرے پہرپورے قافلے نے اس سرکاری اراضی کو بھی دیکھا۔ یہ اراضی ایک ایسی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے جسے بعض روایتوں کی بناء پر گروبالناتھ کا ٹیلہ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رانجھا نے اس ٹیلہ پر گوروبالناتھ سے یوگ لیا تھا اورکان چھدواکر مندریں ڈالی تھیں۔ کوئی سات سو برس سے یہ ٹیلہ ہندوجوگیوں کے قبضہ میں تھا۔ لیکن گذشتہ فسادات کے موقع پر یہ جوگی ہندوستان چلے گئے تھے۔ آج کل یہ ٹیلہ جس پر تقسیم سے پہلے اچھی خاصی آبادی تھی ویران پڑا ہے۔ اس قطعہ زمین میں کبھی کبھی پولیس والے چاندماری کے لئے آجاتے ہیں۔ ورنہ یہ زمین بالکل بیکارپڑی رہتی ہے۔ مرزاصاحب نے کہا کہ اگر حکومت اس رقبہ میں ایک صنعتی شہرتعمیر کرانے کا پروگرام بنالے تو اس قسم کے دوسرے مقامات پر بھی نئے نئے شہر بننے کے امکانات پیداہوسکتے ہیں۔ ٹیلہ بالناتھ سے واپسی پر اخبارنویسوں کی طرف سے مولانا عبدالمجید صاحب سالک نے ربوہ کے میزبانوں کا شکریہ ادا کیا اوریہ قافلہ مرزابشیرالدین محمود احمد کے ہمراہ رات کے وقت واپس لاہورپہنچ گیا۔‘‘

            ربوہ کی بستی کی ابتداء ایک خیمہ نصب کرنے سے ہوئی جسے مکرم عبدالسلام صاحب اختر اورمکرم چوہدری محمد صاحب نے 19ستمبر 1948ء کونصب کیا۔ چونکہ اس علاقہ میں سانپ، بچھو، ریچھ وغیرہ کثرت سے پائے جاتے تھے لہذا پہلا خوف تو یہ تھا کہ اس ویرانے میں کوئی جانورحملہ نہ کردے اور دوسری ذمہ داری یہ بھی تھی کہ چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگلے دن تشریف لاناتھا لہذا اُن کی آمد سے پہلے سائبان اورخیمے وغیرہ نصب کرنے تھے۔اسی کیفیت میں، قادیان کے ان دونوں احباب نے ایک خیمہ نصب کیااورمغرب وعشاء کی نمازیں پڑھیں۔ آدھی رات گذرنے پر مکرم ابوالعطاء صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ احمدنگر کی طرف سے کھانا پہنچا۔

            19ستمبر1948ء کو ہی صدرانجمن احمدیہ اورتحریک جدید کے 34کارکنوں پر مشتمل قافلہ بھی لاہورسے ربوہ کے لیے روانہ ہوا تھا سڑک کی خرابی کی وجہ سے رات گیارہ بجے چنیوٹ پہنچا ۔ اس قافلہ نے رات سڑک پر ہی گزاری اور صبح ساڑھے آٹھ بجے ربوہ پہنچ گئے۔ اسی دن مولانا عبدالرحمن انور صاحب وکیل الدیوان بھی تحریک جدید کا ریکارڈ لے کر پہنچ گئے۔ ان تمام کارکنوں نے چھ رہائشی اور ایک بڑے خیمہ پر مشتمل ایک عارضی بستی حضور کی آمد سے پہلے پہلے آبادکردی۔

            حضرت خیلفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ 20ستمبر1948کو جماعت کے کئی عہدیداروں اوربزرگوں کے ہمراہ دوپہرکے وقت ربوہ پہنچے اور نمازِ ظہرادا کی۔ حضور نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں پڑھیں جو اُنہوںؑ نے مکہ مکرمہ کو بساتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں۔

            حضورؓ نے اس موقع پر ایک طویل مؤثر اوررقت انگیز خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں حضورؓ نے قادیان سے ہجرت کی وجوہات، واقعات، ربوہ کی زمین خریدنے میں مشکلات، معاندین ومخالفین کے ہتکھنڈوں، احمدیوں کی قربانیوں اور مسقتبل کے منصوبوں کے بارہ میں نہایت تفصیل بتایا۔

            خطاب کے آخر پر آپ نے لمبی دُعاکروائی اور رقبہ کے چاروں کونوں اور اورمرکز میں میں قربانیاں کیں۔ یہ قربانیاں حضرت ابراہم علیہ السلام کی یاد میں نیزآئندہ نسلوں کو قربان ہونکی کی توفیق دینے کی دُعا کی غرض سے کی گئیں۔ زمین کے وسط میں حضورؓ نے خوداپنے دستِ مبارک سے بکرا ذبح کیا جبکہ چاروں کونوں میں حضرت مولوی عبدالرحیم دردؔ صاحب، حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بوتالویؔ، حضرت چوہدری برکت علی خانؔؔ صاحب تحریک جدید اورمکرم چوہدری محمد صدیق ؔ صاحب مولوی فاضل نے ایک ایک بکرا ذبح کیا۔

            اسی سفر کے دوران حضور نے نئے مرکز کا نام ’’ربوہ‘‘ رکھنے کا اعلان فرمایا۔

            ربوہ کے آغاز میں احباب جماعت سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ جن میں پانی کی کمی سرِ فہرست تھی۔

            ربوہ کی ابتداء خیموں سے ہوئی اس کے بعد کچی عمارتیں تعمیر ہوئیں اور پھر پختہ عمارات کی تعمیر کے مرحلہ کا آغاز ہوا۔ حضورؓ کی ابتدائی رہائش گاہ بھی ایک کچی عمارت ہی تھی جس کے پاس نماز کی ادائیگی کے لئے عارضی طورپر ’’جائے نماز‘‘ کے طورپر ایک عمارت تعمیر کی گئی۔ ربوہ کا نقشہ میاں عبدالرشید صاحب نے بنایا تھا۔

            پختہ عمارات میں سب سے پہلے مسجد مبارک کی بنیاد 3اکتوبر1949ء کو رکھی گئی۔ حضور کی ذاتی رہائش گاہ کی بنیاد 29مئی 1950ء جب کہ 31مئی 1950ئی کو قصرِ خلافت، تعلیم السلام ہائی اسکول، دفاترصدرانجمن احمدیہ ، دفاتر تحریک اوردفتر لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی گئی۔

            حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 23مارچ 1951ء کومسجد مبارک میں پہلا جمعہ ادافرمایاتاہم یہ مسجد اگست میں مکمل ہوئی۔

            19اکتوبر1953ء کو دفاترتحریک جدید اوردفاترصدرانجمن احمدیہ کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔

’’… جن دنوں قادیان پر حملے ہورہے تھے اورہم سب دعاؤں میں مشغول تھے میں ایک دن بہت ہی زور سے دُعا کررہا تھا کہ مجھے الہام ہوا   اَینَمَاتَکُونُوایَاتِ بِکُم اللّٰہُ جَمِیعًا  میں نے اُس وقت سمجھ لیاکہ ہمارے لئے عارضی پراگندگی ضروری ہے کیونکہ خدتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی جاؤمیں کسی دن برکت اورامن کے ساتھ تم سب کو واپس لے آؤنگا۔ یہ آیت قرآن کریم کی ہے اوردرحقیقت یہ مسلمانوں کی ہجرت مکہ کے بعد مکہ واپس آنے پر دلالت کرتی ہے اس میں دونوں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ ہجرت کی بھی اور ہجرت کے بعد مکہ آنے کی بھی یعنی پہلے ہجرت ہوگی اورپھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کامیابی کے ساتھ واپس لائے گا۔

… ابتدائی حالت میں یہاں بسنے والے 35آدمی تھے ان کے لیے سڑک کے کنارے خیمے لگائے گئے جہاں اب بھی بعض کمرے بنے ہوئے ہیں۔ … ایک سال کے قریب وہاں گزارا۔ پھر لاکھوں روپے خرچ کرکے عارضی مکان بنائے گئے تاوہ ان میں رہیں جنہوں نے شہرآبادکرنا ہے۔ پھر لاکھوں روپے خرچ کرکے یہ بلڈنگز بنیں جو اب تمہیں نظرآتی ہیں۔ اس عظیم الشان صدمہ کے بعد جماعت نے اتنی جلدی یہ جگہ اس لئے بنائی تاوہ مل کر رہ سکیں۔ اکٹھے رہ کر مشورہ کرسکیں۔ …‘‘

            حضورؓ نے لاتعدادمواقع پر اپنے خطباتِ جمعہ، خطبات جلسہ ہائے سالانہ اوراپنی تحریروں کے ذریعہ ربوہ میں احمدیوں کے رہنے کے اصول، قواعدوضوابط اور مستقبل کے منصوبوں کے بارہ میں تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ربوہ میں منعقد ہونے والے دوسرے جلسہ سالانہ کے افتتاحی خطاب میں حضورؓ نے فرمایا:

’’…ہماری موجودہ مثال ان کمزورپرندوں کی سی ہے جو دریا کے کسی خشک حصہ میں سستانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اورشکاری جوان کی تاک میں لگا ہواہوتا ہے ان پر فائر کردیتا ہے اوروہ پرندے وہاں سے اڑکرایک دوسری جگہ پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم بھی آرام سے اوراطمینان سے دُنیا کی چالاکیوں اورہوشیاریوں اورفریبوں سے بالکل غافل ہوکر، کیونکہ مومن چونکہ خود چالاک اورفریبی نہیں ہوتا وہ دوسروں کی چالاکیوں اورفریبوں کا اندازہ نہیں لگاسکتا، اپنے آرام گاہ میں اطمینان اورآرام سے بیٹھے تھے اورارادے کررہے تھے کہ ہم میں سے کوئی اڑکرامریکہ جائے گا، کوئی انگلستان جائے گا، کوئی جاپان جائے گااوردین ِ اسلام کی اشاعت ان جگہوں پر کرے گالیکن چالاک شکاری اس تاک میں تھا کہ وہ ان غافل اورسادہ لوح پرندوں پر فائرکرے چنانچہ اس نے فائرکیا اورچاہا کہ وہ ہمیں منتشرکردے مگر ہماری جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات میں پرندے ہی قرار دیاگیا ہے اپنے اندرایک اجتماعی روح رکھتی تھی۔

…مشرقی پنجاب سے بہت سی قومیں، بہت سے گاؤں نکلے، بہت سے شہرنکلے، بہت سے علاقے نکلے لیکن اُنہوں نے اپنے فعل سے ثابت کردیا کہ وہ قومی روح اپنے اندرنہیں رکھتے تھے۔ وہ پراگندہ ہوگئے، وہ پھیل گئے، وہ منشترہوگئے یہاں تک کہ بعض جگہ پر بھائی کوبھائی کا، باپ کو بیتھے کا اورماں کو اپنی لڑکی کا بھی حال معلوم نہیں۔ صرف وہ چھوٹی سی قوم، وہ تھوڑے سے افراد جو دشمن کے تیروں کاہمیشہ سے نشانہ بنتے چلے آئے ہیں اورجن کے متعلق کہنے والے کہتے تھے کہ دشمن کے حملہ کاایک ریلا آنے دوہ پھر دیکھو گے کہ ان کا کیا حشرہوتا ہے؟ جونہی حملہ ہوایہ لوگ متفرق ہوجائیں گے منتشراورپراگندہ ہوجائیں گے وہی ہیں جو آج ایک مرکز پر جمع ہیں وہ کثیرالتعداد آدمی جو وہاں سے نکلے تھے وہ پھیل گئے، وہ بکھرگئے، وہ پراگندہ وہوگئے مگر وہ چھوٹی سے جماعت جس کے متعلق کہاجاتا تھا کہ ایک معمولی ساریلا بھی آیا تو یہ ہمیشہ کے لئے منتشر ہوجائے گی وہ مرغابیوں کی طرح اُٹھی، تھوڑی دیر کے لئے اِدھراُدھر اُڑی مگر پھر جمع ہوئی اورربوہ میں آکر بیٹھ گئی۔ چنانچہ جو نظارہ آج تم دیکھ رہے ہو یہ خواہ اتنا شاندار نہیں جتنا قادیان میں ہواکرتاتھا کیونکہ ابھی ہماری پریشانی کا زمانہ ختم نہیں ہا لیکن اورکونسی قوم ہے جس کی حالت تمہارے جیسی ہے اورکونسی جماعت ہے جو آج اس طرح پھر جمع ہوکرایک مقام پر بیٹھ گئی ہے یقینا اورکوئی قوم ایسی نہیں۔ پس تمہارے اس فعل نے بتادیا کہ تمہارے اندر ایک حدتک قومی روح ضرورسرایت کرچکی ہے۔ تم اڑے بھی، تم پراگندہ بھی ہوئے، تم منتشربھی ہوئے مگر پھرجو تمہاری جبلت ہے، جو تمہاری طینت ہے، جو چیز تمہاری فطرت بن چکی ہے کہ تم ایک قوم بن کررہتے ہو اورایک آواز پر اکٹھے ہوجاتے ہو یہ فطرت تمہاری ظاہر ہوگئی اوردُنیا نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت تمہیں ہمیشہ کے لئے پراگندہ نہیں کرسکتی۔‘‘