یعنی ایک اور سواری نکلے گی جو اونٹوں کو بے کار کر دے گی۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام کاروبار تجارتی جو کہ پہلے اونٹوں کے ذریعہ سے چلتے تھے۔ اب ریل کے ذریعہ سے چلتے ہیں اور وہ وقت قریب ہے کہ حج کرنے والے بھی ریل کی سواری میں مدینہ منورہ کی طرف سفر کریں گے اور اس روز اس حدیث کو پورا کر دیں گے جس میں لکھا ہے کہ و یترک القلاص فلا یسعٰی علیھا۔
پس جبکہ آخری دنوں کے لئے یہ علامتیں ہیں جو پورے طورؔ پر ظاہر ہو چکی ہیں تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کے دَوروں میں سے یہ آخری دَور ہے اور جیسا کہ خدا نے سات دن پیدا کئے ہیں اور ہر ایک دن کو ایک ہزار سال سے تشبیہ دی ہے ا س تشبیہ سے دنیا کی عمر سات ہزار ہونا نصّ قرآنی سے ثابت ہے اور نیز خدا وترہے اور وتر کو دوست رکھتا ہے اور اس نے جیسا کہ سات دن و تر پیدا کئے ہیں ایسا ہی سات ہزار بھی وتر ہیں۔ ان تمام وجوہات سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہی آخری زمانہ اور دنیا کا آخری دَور ہے جس کے سر پر مسیح موعود کا ظاہر ہونا کتب الٰہیہ سے ثابت ہوتا ہے اور نواب صدیق حسن خاں اپنی کتاب حجج الکرامہمیں گواہی دیتے ہیں کہ اسلام میں جس قدر اہل کشف گذرے ہیں کوئی ان میں سے مسیح موعود کا زمانہ مقرر کرنے میں چودھویں صدی کے سر سے آگے نہیں گذرا۔ ا ب اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو اس اُمت میں سے پیدا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں وعدہ فرمایا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے زمانہ نبوت کے اوّل اور آخر کے لحاظ سے حضرت موسیٰ ؑ سے مشابہ ہوں گے۔ پس وہ مشابہت ایک تو اوّل زمانہ میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ تھا اور ایک آخری زمانہ میں۔
(لیکچر سیالکوٹ صفحہ 212)