حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

محمد سلطان ظفر

غیرمسلموں کی طرف سے ، کتابوں، اخباروں اور فلموں میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر آٹھ سال تھی، حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔

 یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسلامی روایات میں نکاح اور رخصتی دو مختلف امور ہیں۔ نکاح ایک مذہبی اور بعض ملکوں میں قانونی ضرورت ہے جس سے مرد اور عورت کو  بطور میاں بیوی  اکٹھا رہنے کی اجازت مل جاتی ہے۔جبکہ رخصتی  وہ عمل ہے جب لڑکی بلوغت کی عمر میں پہنچ کراپنے شوہر کے ساتھ اکٹھا رہنا شروع کردیتی ہے۔  نکاح پہلے ہوجاتا ہے اور بعد ازاں رخصتی ہوتی ہے۔ یہ دنوں امور اکٹھے بھی ہوسکتے ہیں اور دِنوں، ہفتوں، مہینوں یا سالوں کے وقفہ سے بھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کا نکاح رسول کریمﷺ سے سات سال کی عمر میں ہوگیا تھا لیکن رخصتی کے وقت آپؓ کی عمر بارہ سال تھی۔ جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں یہ روایت نقل کی ہے کہ

کَانَتْ عَائِشَۃُ وَلَدَتِ السَّنَۃَ الرَّابِعَۃَ مِنَ النُّبُّوَۃِ فِی اَوَّلِھَا

 یعنی حضرت عائشہ سنہ 4 نبوی کے ابتداء میں پیداہوئیں تھیں۔

اورکئی روایتوں  سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؓ کی رخصتی 2ہجری میں ہوئی۔ اس طرح آپ کی عمر 12سال بنتی ہے۔

(بحوالہ سیرۃ خاتم النبین ﷺ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب۔ صفحہ 423 تا426)

مخالفینِ اسلام نے تاریخ ِاسلام میں حضرت عائشہ کے نکاح کے واقعہ کو ، اسلامی روایات سے بنیادی لاعلمی کی وجہ سے ، رخصتی سمجھ کر شادی قراددے دیا جو کہ خلافِ واقعہ ہے۔

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بعض ممالک، جن  میں عرب ممالک  بھی شامل ہیں ، کی بچیاں بہت جلد جوان ہوجاتی ہیں۔ اور اب بھی کئی ممالک میں بارہ سال کی عمر میں شادی معمولی بات ہے۔

کئی دوسری وجوہات کے علاوہ ایک بہت اہم وجہ اس کم عمری کی شادی کی یہ بھی تھی حضرت عائشہ ؓ   کو کم عمری میں ہی رسول کریم ﷺ کے ساتھ  دن رات ،دس سال گزارنے کا موقع مل گیا۔ اور چونکہ چھوٹی عمر میں یادداشت اچھی ہوتی ہے لہذا رسول اللہ ﷺ کے سیرت کے جو پہلو حضرت عائشہ ؓ نے ، رسول کریم ﷺ کی وفات کے 50سال بعد تک  بیان فرمائے ہیں، وہ کوئی اور بیان کرہی نہیں سکتا تھا۔ یہ ایک ایسا عظیم الشان احسان امتِ مسلمہ پر ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ان 50سالوں میں آپؓ نے امت مسلمہ کو سنتِ نبوی اوراحادیث سے روشناس کروایا اور ہم آج تک اُن سے فیض مند ہورہے ہیں یہ فیض انشاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا۔ حضرت ابوہریرہؓ کے بعد سب سے زیادہ روایات حضرت عائشہ ؓ سے ہی مروی ہیں۔ آپ ؓ نے نہ صرف احادیث امتِ مسلمہ تک پہنچا کر امتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم فرمایا بلکہ دین کی وضاحت اور تشریح بھی کی۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا؟

رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا تھاکہ تم آدھا دین عائشہؓ سے سیکھ سکتے ہو۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپؓ کو آدھا دین آتاتھا۔ حضرت عائشہ ؓ ، جو کہ اپنے آقا کے ہر رنگ میں رنگی ہوئی تھیں تو ہر پہلو سے دین کو سمجھتی تھیں، لہذا حضورﷺ کی حدیث کایہی مطلب بنتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کا رتبہ آدھے نبی جتنا ہے، کیونکہ یہ نبی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنی امت کو دین سکھائے۔

 بعض لوگ حدیث ’لا نبی بعدی‘ کا قرآن کریم کے بالکل خلاف یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔

جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا ہے کہ

’’لوگو ! آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین تو کہو مگر ہر گز یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ ‘‘

(تفسیر الدرالمنثور جلد 5 صفحہ 204)

حضرت عائشہؓ  کا ایک اور احسان  امتِ مسلمہ پر یہ ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی نماز سے محبت کو ہمارے سامنے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ

جب آپؐ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو بوجہ سخت ضعف کے نمازپڑھانے پر قادر نہ تھے اس لئے آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جب ابوبکرؓ نے نماز پڑھانی شروع کی تو آپؐ نے کچھ آرام محسو س کیا اور نماز کے لئے نکلے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کونماز پڑھانے کا حکم دینے کے بعد جب نماز شروع ہوگئی تو آپؐ نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی پس آپؐ حجرے سے مسجد کی طرف نکلے اور دو آدمی آپ کو سہارا دے کر لے جارہے تھے اور اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہے کہ شدت درد کی وجہ سے آپؐ کے قدم زمین سے گھسٹتے جاتے تھے۔ آپؐ کو دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے ارادہ کیا کہ پیچھے ہٹ آئیں ۔ اس ارادہ کو معلوم کرکے رسول کریم ﷺ نے ابوبکرؓ کی طرف اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپؐ کو وہاں لایا گیا اور آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے پاس بیٹھ گئے اس کے بعد رسول کریمؐ نے نماز پڑھنی شروع کی اور حضرت ابوبکرؓ نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنی شروع کی اور باقی لوگ حضرت ابوبکرؓ کی نماز کی اتباع کرنے لگے۔

 (صحیح بخاری کتاب الاذان باب حد المریض)

حضرت عائشہ ؓ  مزید فرماتی ہیں کہ

نماز باجماعت کے علاوہ آنحضور ﷺ باقاعدگی سے نوافل اور نماز تہجد کا التزام فرمایا کرتے تھے۔ جب سب دنیا سورہی ہوتی آپؐ اپنے بستر کو چھوڑ کر بے قرار دل کے ساتھ اپنے خالق و مالک اور محبوب ازلی کے حضور حاضر ہو جاتے۔ اور اپنی مناجات پیش کرتے۔گویا دربار خاص لگ جاتا جس میں آپؐ ہوتے اور سامنے آپ کا رب ہوتا۔

آنحضرت ﷺ رات کے وقت اس قدر دعائیں کرتے اور اس قدر لمبی نماز پڑھتے کہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپؐ کے پاؤں متورم ہوجاتے اور پھٹنے لگتے۔

 (بخاری کتاب التہجدباب قیام النبیﷺ)

رات کا وقت ہے ۔ حضرت عائشہؓ کی آنکھ کھلتی ہے وہ آپؐ کو اپنے بستر پر نہیں پاتیں ۔ وہ کہتی ہیں

’’ایک رات (میری آنکھ کھلی) تو میں نے حضورؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال آیا کہ حضورؐ مجھے چھوڑ کر کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں ۔ پھر میں حضورؐ کو تلاش کرنے لگی تو کیادیکھتی ہوں کہ حضورؐ (نماز میں ) رکوع میں ہیں (یاشاید) آپؐ ا س وقت سجدہ کر رہے تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ تو اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ ہر قسم کی بزرگی کاحامل ہے( تو میرا رب ہے) تیرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپؐ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اے اللہ جو کچھ میں لوگوں سے چھپ کر کرتاہوں اور جو کچھ میں ان کے سامنے کرتا ہوں ان میں سے ہر عمل کو اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ لے۔‘‘

 حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے حضور کو جب (نماز میں ) اس طرح اپنے مولیٰ کے حضور دعا کرتے دیکھا تو مجھے اپنی حالت پر افسوس ہوا اور میں نے دل ہی دل میں کہا تم کیاسمجھ بیٹھیں خدارا ان کی توشان ہی کچھ اور ہے۔

 (نسائی کتاب عشرۃ ا لنساء باب ا لغیرۃ وکتاب ا لصلوٰۃ باب ا لدعا ء فی السجود)

ایک بار حضرت ابن عمرؓ  نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آپ مجھے آنحضور ﷺ کی کوئی ایسی بات بتائیں جو آپ کوبہت ہی عجیب معلوم ہوتی ہو۔ اس پر حضرت عائشہؓ رو پڑیں اور ایک لمبے عرصہ تک روتی رہیں اور جواب نہ دے سکیں پھر فرمایا کہ

 آپؐ کی تو ہر بات ہی عجیب تھی کس کاذکر کروں اور کس کا نہ کروں ۔ایک رات میرے ہاں باری تھی حضورؐ میرے پاس تشریف لائے بستر میں داخل ہوئے اور فرمایا اے عائشہ کیا مجھے اِس بات کی اجازت دیں گی کہ مَیں اپنے رب کی عبادت میں یہ رات گزاروں۔

میں نے عرض کیا یا رسول اللہ یقینا مجھے تو آپ کا قُرب پسند ہے اور آپؐ کی خوشنودی مقصود ہے میں آپؐ کو خوشی سے اجازت دیتی ہوں۔ اس پر حضور اٹھے اور گھر میں لٹکے ہوئے ایک مشکیزہ کی طرف گئے اور وضو کیا پھر آپؐ نماز پڑھنے لگے اور قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمایا۔ آپؐ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی پھر آپؐ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد اور تعریف کی اور پھر رونا شروع کردیا پھر آپؐ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور پھر رونے لگے یہاں تک میں نے دیکھا کہ آپؐ کے آنسوؤں سے زمین تر ہوگئی اور اسی حال میں وہ رات گزر گئی اور جب صبح کے وقت حضرت بلالؓ نماز کے لئے آپؐ کو بُلانے آئے تو اس وقت بھی آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ رو رہے ہیں کیا آپؐ کے متعلق اللہ نے یہ خوشخبری نہیں دی وَقَدْغَفَرَاللہ لَکَ مَاتَقدَّم مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ پھر آپ کیوں روتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا  ’’اے بلال کیامیں خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔ ‘‘

(تفسیرکشاف زیرِآیت ان فی خلق السمٰوٰت والارض)

مندرجہ بالا چندواقعات سے ہی یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ نے، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کے جن پاک گوشوں کو اجاگر کیا ہے وہ کسی اور صحابی کے لئے ناممکن تھا اورپاک شادی کی یہ بھی ایک بنیادی وجہ تھی۔

خدا کرے کہ ہم ہر لمحہ حضرت عائشہؓ کے بابرکت نقشِ قدم پر چلنے کی بھرپورکوشش کرتے رہیں۔  آمین۔