قرآن کریم نے اپنے منجانب اللہ ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں صرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اس دعویٰ کو نہایت مضبوط اور قوی دلیلوں کے ساتھ ثابت بھی کر دیا ہے اور ہم انشاء اللہ تعالیٰ سلسلہ وار اُن تمام دلائل کو لکھیں گے اور ان میں سے پہلی دلیل ہم اسی مضمون میں تحریر کرتے ہیں تاحق کے طالب اول اسی دلیل میں دوسری کتابوں کا قرآن کے ساتھ مقابلہ کریں اور نیز ہم ہریک مخالف کو بھی بلاتے ہیں کہ اگر یہ طریق ثبوت جس کا ایک کتاب میں پایا جانا اس کی سچائی پر بدیہی دلیل ہے ان کی کتابوں اور نبیوں کی نسبت بھی پایا جاتا ہے تو وہ ضرور اپنے اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ سے پیش کریں ورنہ ان کو اقرار کرنا پڑے گا کہ ان کی کتابیں اس اعلیٰ درجہ کے ثبوت سے عاری اور بے نصیب ہیں اور ہم نہایت یقین اور وثوق سے کہتے ہیں کہ یہ طریق ثبوت ان کے مذہب میں ہرگز پایا نہیں جاتا۔ پس اگر ہم غلطی پر ہیں تو ہماری غلطی ثابت کریں اور وہ پہلی دلیل جو قرآن شریف نے اپنے منجانب اللہ ہونے پر پیش کی ہے۔ اُس کی تفصیل یہ ہے کہ عقل سلیم ایک سچی کتاب اور ایک سچے اور منجانب اللہ رسول کے ماننے کے لئے اس بات کو نہایت بزرگ دلیل ٹھہراتی ہے کہ ان کا ظہور ایک ایسے وقت میں ہو جبکہ زمانہ تاریکی میں پڑا ہو۔ اور لوگوں نے توحید کی جگہ شرک اور پاکیزگی کی جگہ فسق اور انصاف کی جگہ ظلم اور علم کی جگہ جہل اختیار کر لیا ہو اور ایک مصلح کی اشد حاجت ہو اور پھر ایسے وقت میں وہ رسول دنیا سے رخصت ہو جبکہ وہ اصلاح کا کام عمدہ طور سے کر چکا ہو اور جبؔ تک اس نے اصلاح نہ کی ہو دشمنوں سے محفوظ رکھا گیا ہو اور نوکروں کی طرح حکم سے آیا ہو اور حکم سے واپس گیا ہو۔ غرض کہ وہ ایسے وقت میں ظاہر ہو جبکہ وہ وقت بزبان حال پکار پکار کر کہہ رہا ہو کہ ایک آسمانی مصلح اور کتاب کا آنا ضروری ہے اور پھر ایسے وقت میں الہامی پیشگوئی کے ذریعہ سے واپس بلایا جاوے کہ جب اصلاح کے پودہ کو مستحکم کر چکا ہو اور ایک عظیم الشان انقلاب ظہور میں آچکا ہو۔ اب ہم اس بات کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ دلیل جس طرح قرآن اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نہایت روشن چہرہ کے ساتھ جلوہ نما ہوئی ہے کسی اور نبی اور کتاب کے حق میں ہرگز ظاہر نہیں ہوئی۔
(نورالقرآن نمبر1۔ صفحہ 335 – 336 روحانی خزائن جلد نمبر 9)