وادی چھتر پلین کی ایک شام

(وادی ہزارہ میں تاریخ احمدیت کی خوبصورت  یادیں)

  اصغر علی بھٹی  مغربی افریقہ

   شاہراہ ریشم ایک خوبصورت نام ،ایک خوبصور ت سوچ کا عکس،جس کا دامن ہری پور سے شروع ہو کر چین کے صوبہ سنکیانگ تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہ شاہراہ وادی ہزارہ کی خوبصورت وادیوں کے دامن میں بلند وبانگ برفیلے پہاڑوں پر بل کھاتی ،چیڑھ، صنوبر، پڑتل اور دیودار کے گھنے جنگلات سے راستہ بناتی مانسہرہ سے 85 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت وادی کی ڈھلانوں پر اُتر جاتی ہے۔چاروں طرف سے برف پوش پہاڑوں میں گھری، قدرت کی اس حسین پیالہ نما وادی کو چھتر پلین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔گوجر اور سید لوگوں کی آبادی اس کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے۔زیادہ تعداد سید برادری کی ہے۔  

چھتر پلین اور شارکول کے بنگلہ کا تعارف

شاہراہ ریشم پر مانسہرہ سے 85کلومیٹر کے فاصلہ پر بٹ گرام سے 14کلومیٹر پیچھے یہ خوبصورت میدان ہے ۔جو چاروں طرف سے بلند و بالا پہاڑوں میں گہرا ہوا ہے۔درمیان میں خوبصورت لہلہاتی فصلیں اور چھتر پلین کا ایک مختصر سا قصبہ ہے ۔

چھتر پلین خوبصورتی کے لحاظ سے ایک منفرد چیز ہے چاروں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہیں درمیان میں تقریباً 20کلومیٹر کا گول میدانی علاقہ ہے ۔اس میدان کے وسط میں چھتر پلین کا چھوٹا سا گاوں شاہراہ ریشم کے اوپر واقع ہے ۔جو چند ہوٹلوں اور چند جنرل سٹورز پر مشتمل ہے ۔شروع میں اس کا نام صرف چھتر تھا 1965کے بعد پلین کا لفظ اضافہ کردیاگیا۔تاریخی روائت کے مطابق اس میدانی علاقے کو ایک ہندو چھتر صاحب نے آباد کیا تھا اور ان کی ہی وجہ سے اس کا نام چھتر ہے جبکہ مقامی آبادی کے بقول پہاڑوں میں گرے اس علاقے کی شکل ایک بڑی الٹی چھتری کی طرح ہے اس وجہ سے چھتر مشہور ہوا۔چھتر پلین سے تقریباً نصف کلومیٹر بٹ گرام کی طرف جائیں تو شاہراہ ریشم پر ایک بورڈ نصب نظر آتا ہے۔ڈاک بنگلہ شارکول ۔چھتر پلین اور شار کول بڑی تاریخی اہمیت کے حامل مقام ہیں  ۔حضرت سید احمد شہید صاحب نے یہاں قیام فرمایا تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کئی دفعہ اس جگہ تشریف لائے۔اس لحاظ سے یہ بنگلہ جماعت احمدیہ کے لیے بھی بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پیارے آقا نے اس جگہ کو گرمیاں گزارنے کے لیے پسند فرمایا  تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تالیٰ تو خلافت سے قبل بھی ایک دفعہ اس جگہ تشریف لے گئے  تھے۔اس کے علاوہ جماعت کے بہت سے اکابرین بھی یہاں جایا کرتےتھ۔

 شارکول کا بنگلہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد تعمیر کیا گیا ۔یہ 7کمروں پر مشتمل ہے ۔3بیڈروم ایک Sitting Hallایک ڈائنگ ہال ایک پینٹری اور ایک کچن ہے ۔شارکول بنگلے کے مغرب میں بائی بالا گاوں کوئی 2کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جنوب میں 2/1کلومیٹر کے فاصلے پر چھتر پلین قصبہ ہے ۔مشرق میں بالی رنگ کا قصبہ 4کلومیٹر کے فاصلے پر ہے شمال میں شار کول کا گاوں 2کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

 جنوری 1997 کے ایک سرد شام مَیں اسی وادی میں ایبٹ آبادمجلس کے خدام مکرم  رفیع تنولی او ر مکرم اعجاز خان صاحب کے ساتھ ایک بڑے سید سردار عزت علی شاہ صاحب کی بیٹھک میں موجود تھا۔  بیٹھک میں زمین پر انتہائی نفیس قالین بچھا کر اور گائو تکیے لگا کر بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ علاقے کے سرکردہ لوگ جن میں کچھ وکیل ،کچھ بزنس مین اور بڑے بڑے زمیندار جمع تھے۔

بڑے شاہ صاحب نے اپنے پوتے کے دوبئی سے واپس آنے کی خوشی میں ایک بڑے کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا ۔ان سب میں  سے صرف ہم لوگ ہی اس محفل کے لئے اجنبی تھے ۔ مکرم عزت علی شاہ صاحب کے منجھلے بیٹے سے ہماری تبلیغی بات چیت جاری تھی اور اُسی کی دعوت پر ہم لوگ بھی اس محفل میں شریک تھے ۔ گرم شالیں اوڑھے علاقے کے یہ چنیدہ لوگ غم جاناں،غم ہستی اور غم دوراں پر گرم گرم تبصرے کر رہے تھے ۔بات  پولیٹکل مسائل سے ہوتی ہوئی مذہبی سیاست پر آئی اور پھر مولوی حضرات کی طرف مڑ گئی۔

ایک جہاندیدہ وکیل نے خطیب ہزارہ جناب مولوی اسحاق مانسہروی صاحب کا ایک قصہ سنا کر محفل کو محفل زعفران بنا دیا۔لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے  اور ہم اور ہمارا زیر تبلیغ  دوست کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔وکیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہوا یوں کہ مولوی اسحاق مانسہروی جو بہت شعلہ بیان خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ”خطیب ہزارہ “کی مسند پر بھی فائز تھے ۔ قانون تھا کہ مانسہرہ میں جو بھی نیا افسر آتا وہ پہلے آپ کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوتا  ، نذر نیاز پیش کرتا اور دعا کی درخواست کرتا۔ اسی دوران ایک اے ۔سی صاحب تشریف لائےمگر دو ہفتے گزرنے کے باوجود نہ رابطہ کیا ، نہ دعاکا کہااور نہ ہی نذرانہ بھجوایا۔یاران حلقہ نے اس طوطا چشم ،ناخلف کے بارے میں لب کشائی کی کہ یا حضرت بڑا بدید ہے ۔ اس کو کسی نے ادب آداب ہی نہیں سکھائے ۔ مولانا نے ترنگ میں آکر فرمایا جاؤ اس خبیث کے بارے میں معلومات اکھٹی کرو ۔ آخر اس نے اتنی جرات کیسے کی ؟احباب نے بتایا کہ یا حضرت ہم نے پہلے ہی سے معلومات حاصل کرلی ہیں ۔ یہ بڑا کٹر وہابی ہےاور آپ ٹھہرے اہل سنت ۔وہ آپ کے پاس دعا کے لئے کیوں حاضر ہو گا۔وہ تو آپ کو کافر سمجھتا ہے۔مولانا جلال میں آگئے فرمایا آنے دو جمعہ کا دن ۔ اس خبیث وہابی کا بندوبست کرتے ہیں دیکھتا ہوں کیسے ایڑیا ںرگڑتے ہوئے حاضر نہیں ہوتا۔

چنانچہ جمعہ کا دن آگیا۔ مولانا نے خطبہ جمعہ کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا” اے اہل ہزارہ کے غیور مسلمانوں ،تاجدار عربی کےغلاموں،تمہارے ایمان کے امتحان کا وقت آن پہنچا ہے۔ کمر ہمت کس لو۔ اور ایمان بچانے کے لئے اور ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائو ۔ حکومت وقت نےہم مسلمانوں کے جذباتسے کھیلتے ہوئے ہزارہ کے عظیم  مسلمانوں پر ایک قادیانی کو اے ۔ سی بناکر متعین کر دیا ہے۔ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اگر اگلے جمعہ تک اس مرتد قادیانی کو تبدیل نہ کیا گیا تو ہزارہ کے سرفروش مسلمان کفن باندھ کر سڑکوں پر نکل آئیں گے اور اس کے بعد کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔

جمعہ ختم ہوا ۔ اہل کاروں نے جناب  اے سی صاحب کو اطلاع دیاور اُنہوں نے پہلی فرصت میں گاڑی پکڑی اور مولانا کے پاس روتے پیٹتے حاضر ہو گئے۔ یا حضرت میرے خاندان میں دور دور تک کوئی  قادیانی نہیں ہے پھر آپ نے اتنا بڑا الزام مجھ پر بغیر تحقیق کےکیسے  لگا دیا؟مولانا فاتحانہ انداز میں مسکرائےاور فرمایا او ناخلف مجھے پتہ ہے کہ تیرے خاندان میں دور دور تک کوئی قادیانی نہیں ہے مگر تیرے جیسے سر پھروں کا یہی ایک کامیاب علاج ہے ۔ آئندہ احتیاط کرنا۔اور وقت پر نذرانہ بھجواتے رہنا۔

چنانچہ اگلے جمعہ مولانا نے الحمد للہ سے خطبہ شروع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ تحقیق کی گئی ہے اور پتہ چلا ہے کہ بات غلط تھی ۔ اے۔ سی صاحب مسلمان  ہیں۔ اہل ایمان مطمئن رہیں جب تک ان بوڑھی ہڈیوں میں جان ہے اپ کے ایمان کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔مسجد سے نکلتے ہوئے تما م مسلمان  بہت خوش تھے کہ الحمد للہ ایمان کو خطرہ ٹل گیا۔یہ قصہ سنا کر وکیل صاحب نے بہت داد وصول کی۔ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے  اور ہم اور ہمارا زیر تبلیغ دوست اس کامیاب نسخے پر سر دھنتے رہ گئے۔ 

یہ تھی وادی چھتر پلین میں ہماری ایک شام  کی کہانی مگر پھر اس کے بعد بہت دفعہ یہاں آنا جانا ہوا ۔ کئی دفعہ سوال و جواب کی محافل ہوئیں۔لیکن  چھتر پلین کی یہ سرزمین وادی ہزارہ کے دوسرے حصوں کی طرح فطرت کے دئیے ہوئے حسن سے  جتنا مالامال ہے فطرت کی آواز سے اتنی ہی دور ہے۔ اسی چھتر پلین کو خلافت کے مبارک قدموں نے کئی دفعہ اعزاز بخشا مگر دل کی کالک جانی تھی نہ گئی۔