تحریر: عرفان احمد خان۔فرینکفرٹ جرمنی
(مرسلہ: سعید احمد مجید)
اقوام متحدہ نے 20جون کو پناہ گزینوں کا عالمی دن قرار دے رکھا ہے اور اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2018ء کے آخر تک 70.8 ملین افراد پناہ گزینوں کی تعریف میں شامل تھے۔ اقوام متحدہ نے پناہ گزینوں کو تین درجوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ 41.3ملین افراد وہ ہے جو خانہ جنگی سے متاثر ہوکر اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئےاور اب عارضی کیمپوں میں بیٹھ کر حالات کے پُرامن ہونے اور گھروں کو واپس لوٹنے کے منتظر ہیں۔ 29.9 ملین وہ افراد ہیں جنہوں نے گھر بار کے علاوہ اپنا ملک چھوڑنا ان کی مجبوری بن گیا اور وہ دوسرے ممالک کی سرحدوںپر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ تیسرا درجہ ان مہاجرین کا ہے جنہوں نے دوسرے ممالک میں جا کر اپنے ملک کے حالات کے خلاف اسائلم کی درخواست دی ہے۔
جن ممالک نے حالات سے متاثرہ خاندانوں کو اپنے ملک میں پناہ ان میں پہلے پانچ ممالک میں ترکی نے 3.70ملین، پاکستان نے 1.40،یوگنڈا نے 1.17،سوڈان نے 1.07 اور جرمنی نے 1.06ملین شامل ہیں۔ متاثرین کا جائزہ لیا جائے تو پہلے پانچ ممالک کی تعداد کچھ اس ترتیب سے بنتی ہے۔ شام 6.70،افغانستان 2.70، جنوبی سوڈان 2.30، برما 1.10اور صومالیہ 0.95ملین ہے۔ اگر گزشتہ 10 سال کا جائزہ لیا جائے تو پچھلے ساتھ سال میں پناہ گزینوں کی تعداد میں 65فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان مہاجرین کی آبادکاری اور نگہداشت کی ذمہ داری اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UNHCR کے سپرد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس کام کے لئے اپنے اپنے ملک میں ادارے قائم کر رکھے ہیں جہاں ایک مربوط نظام قائم ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ کو اپنی زیادہ توجہ ترقی پذیر ممالک کی طرف رکھنی پڑتی ہے جس کے لئے جرمنی اقوام متحدہ کا ایک مضبوط بازو ہے۔ اس کام کے لئے مالی مدد دینے والوں میں بھی جرمنی پہلی پوزیشن پر ہے۔ اسی ہفتہ کے دوران اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین Filippo Grandi نے جرمن وزیر خارجہ اور جرمن حکومت کے کمشنر برائے مہاجرین سے ملاقاتیں کی ہیں اور دنیا میں پناہ گزینوںکی صورتِ حال پر جرمنی سے مزید امدا کا تقاضا کیا ہے۔
خود جرمنی نے یورپین یونین ممبرممالک میں سب سے زیادہ تعداد میں مہاجرین کو قبول کیا ہے۔ ملک کے اندر حکومت کی مہاجرین کی آباد کاری کی پالیسی پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ گزشتہ الیکشن اور پھر بعد میں ہونےو الے صوبائی انتخابات میں حکومت کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور اسائلم مخالف سیاسی پارٹیاں پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ حکومت نے عوامی دباؤ کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے اسائلم پالیسی میں تبدیلیاں کرکے اسائلم کے طریقہ کار کو تیز کرنے کی کوشش کی ہے۔ محفوظ ممالک کی فہرست جاری کرکے ان ممالک کے افراد کو واپس اپنے ملک بھجوانے کا عمل بھی تیزکر دیا ہے۔ جن لوگوں کو عدالتیں اسائلم کا حق نہیں دیتیں ان کو ڈی پورٹ کرنے میں بھی جلدی دکھانا شروع کر دی ہے۔ اور جو ممالک اپنے شہریوں کولینے سے انکاری ہیں یا رکاوٹیں ڈال رہے ہیں وہاں سے ٹورسٹ ویزہ جاری کرنے کا عمل سست روی شکار کر دیا گیا ہے۔مئی 2017ء میں اس وقت کے وزیر داخلہ نے یہ پالیسی بنگلہ دیش پر آزمائی تھی جس کے مثبت نتائج سامنے آئے اور اب یہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے۔ وہ تمام ممالک جو اپنے شہریوں کو واپس قبول کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں ان ممالک سے آنےو الے سیاحوںکو ویزہ جاری کرنے کی تعداد محدود کر دی گئی ہے۔
لیکن ساتھ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ جرمنی کو 2060ء تک ہر سال دو لاکھ ساٹھ ہزار ہنر مند افراد کی ضرورت ہے۔ ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق اگلے دس سال میں جرمنی کو تین ملین ہنر مند افراد چاہییں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے پیش نظر 2012ء میں بلیو کارڈ سکیم کا اجراء کیا گیا تھا۔ شروع میں اس سکیم سے فائدہ اٹھانےو الوں کے پاس یونیورسٹی ڈگری ملازمت کی یقین دہانی اور سالانہ تنخواہ تریپن ہزار چھ سو یورو ہونا ضروری تھا۔ اس سکیم سے زیادہ تر بھارت ، روس اور چین کے شہریوں نے فائدہ اٹھایا۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2018ء تک صرف ایک لاکھ چار ہزار افراد اس سکیم سے فائدہ اٹھانےو الوں میں شامل تھے۔ ان میں سے بھی بیالیس اعشاریہتین فیصد (42.3%) جرمنی چھوڑ گئے اور (57.8%) جرمنی میں رہنا چاہتے ہیں۔اس اعتبار سے یہ سکیم پورے طور پر کامیاب نہیں رہی۔ دو بار حکومت اس پالیسی کو نرم کرکے مزید سہولتیں دینے کا اعلان کرچکی ہے۔ لیکن زبان کے فرق اور بیوروکریسی کے رویہ سے تنگ لوگ جرمنی ٹھہرنا پسند نہیں کررہے۔ لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے برلن کی صوبائی حکومت نے ایک نیا دفتر کھولا ہےجس کاجرمن زبان میں نام Landesamt für Einwanderung یعنی امیگریشن کا سرکاری دفتر رکھا ہے۔ یہ دفتر بلیوسکیم کے تحت آنے والوںکی تمام ضروریات کو پورا کرنے کا ذمہ دارہوگا۔ اور نئےآنے والے کو مختلف دفتروں کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں رہےگی۔ ان جیسی سہولیات کے باوجود جرمن انڈسٹری کو جس قدر ہنر مند افرا دکی ضرورت ہے اس کا دس فیصد بھی پورا کرنے میں جرمن امیگرنٹ پالیسی ناکام ہے اور یہ بات جرمنی جیسے صنعتی ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس لئے اب جرمن صنعتکار یونین Dutsche industrieverband اور جرمن چیمبر آف کامرس نے مل کر جرمن حکومت پر دباؤ بڑھایا ہے کہ اسائلم سیکر کو ملک سے باہر نکالنے کی بجائے ان کو ٹریننگ دے کر انڈسٹری کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اس کےلئے جرمن انڈسٹری کے مرکزی ادارے نے ایک یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ کو سروے رپورٹ تیار کرنے کا کام سپرد کیا تھا۔ اس کے لئے انہوں نے حکومت کو جرمن چرچ کی مثال دی ہے۔ جرمنی میں رہنے والے وہ پناہ گزین جن کو ہرطرف سے انکارہوجاتا ہے اور پولیس ان کی متلاشی ہوتی ہے تو وہ چرچ میں پناہ لے لیتے ہیں۔ 2015-2016ء کے دوران دو ہزار پانچ سو تینتیس افراد نے چرچ میں چھپ کر پناہ لی۔ اس معاملے کو حل کرنے کے لئے چرچ بورڈ بنا جس نے جرمنی امیگریشن ادارے BAMFسے مذکرات کئے۔ جس کے نتیجہ میں 80%لوگوں کی رحم کی اپیلیں منظور کرکے ان کو جرمنی میں مستقل قیام کی اجازت دے دی گئی۔ ایسا ہی 2018ء میں ہوا جب اسی طرز پردو ہزار پانچ سو تینتیس چرچ میں چھپے ہوئے افراد مستقل ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کام میں چرچ نےیہ مدد کی کہ ایک سو بارہ ملین یورو کا فنڈ جمع کرکے مہاجرین کی آبادکاری کے لئے حکومت کو مہیا کیا۔
جرمن انڈسٹری بھی فنی مہارت سکھانے کے اخراجات اٹھانے کو تیار ہے۔ 2015ء میں جو لوگ آئے تھے ان میں سے اکثریت اپنے پاؤں میںکھڑے ہونے میںکامیاب ہوچکی ہے۔ 2018ء تک انڈسٹری نے چار لاکھ افراد کو ٹریننگ دے کر ہنرمند بنایاا ور وہ سب جرمن صنعت کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اسائلم کی درخواست دینےو الے کو تین سے بارہ ماہ تک انتظار کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس دوران سائل انتظامی مسئلوں میں گھرا رہتا ہے۔ اس وقت کو ضائع ہونے سے بچایاجانا چاہیے۔ پھر اسائلم والے زیادہ تر ایسی عارضی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں جوکو لیبر مارکیٹ اہمیت نہیں دیتی۔ انہوں نے سروے کرکے بتایا کہ فروری 2018ء سے جنوری 2019ء تک ایک سال میں آٹھ ممالک افغانستان، اریتھریا، ایران، عراق، نائجیریا، پاکستان،صومالیہ اور شام سے آنےو الوںمیں سے پچانوے ہزار پناہ گزینوں پر سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ پچیس فیصد مستقل ملازمت پر لگے ہیں جبکہ پچہتر فیصد عارضی ملازمتوں پر کام کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال ملک کی صنعت اور خود مہاجرین کے لئے اچھی نہیں۔ اس مجبوری کا حل یہی ہے کہ ایسے افراد کو فوری صنعتی ٹریننگ پرلگایا جائے۔ 18اور 25 سال تک کی عمر کے پناہ گزین کے طالب کو دو سال جرمن زبان اور تین سال فنی ٹریننگ یعنی کل پانچ سال کا کورس لازمی کروایا جائے۔ انڈسٹری اس میں حکومت کےساتھ تعاون کرے گی۔ سروے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کام سیکھنے اور محنت سے کام کرنے میں پاکستان اور نائیجیریا کے لوگ اوّل نمبر پر ہیں۔ لیکن پاکستانی زبان سیکھنے پر توجہ نہیںدیتے۔ سروے کے دوران جن پاکستانیوں سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو سب کا ایک ہی جواب تھا کہ جرمنی آنے پر جو خرچہ آیا ہے وہ قرض میں نے اُتارنا ہے اور گھر والوں کی بھی مدد کرنی ہے اس لئے توجہ کام سیکھنے کی بجائے کام تلاش کرنے پر مرکوز رہی۔ شام ،عراق اور افغانستان سے آنے والے زبان سیکھنے کو اہمیت دیتے ہیں۔
جرمن انڈسٹری نے حکومت کے آگے سوال اٹھایا ہے کہ 2015ء میں Bundesamt نے ایک ہزار ایک سو چالیس افراد کا انٹرویو کیا جس میں سے ایک سو پچانوےمنظور کرکے نو سو پینتالیس کو مسترد کر دیا۔ اسی طرح 2016ء میں دس ہزار تین سو دس انٹریوہوئے جن میں سے چار سو تیس منظور اور نو ہزار آٹھ سو اکیاسی مسترد کر دئیے گئے۔ 2017ء میں سولہ ہزار آٹھ سو بیس کے پہلے انٹرویو ہوئے۔ آٹھ سو پچانوے منظور کئے گئے اور پندرہ ہزار نو سو تیس مسترد کردئیے گئے۔ مسترد ہونےو الوں کو عدالتوں کو رُخ کرنا پڑتا ہے اور جب تک کیس منظور نہ ہوان کو کام کرنے اور ہنر سیکھنے میں بیورو کریسی حائل رہتی ہے اور ان کی عمر ضائع جاتی ہے۔ 2015-2017ء کے درمیان آنے والے اٹھائیس ہزار تین سو پچانوے افراد پر جو سروے کیا گیا ان میں 90.5% مرد اور 9.3% عورتیں تھیں۔ ان میں 74%وہ لوگ تھے جن کی عمر اٹھائیس سے چونتیس سال کے درمیان ہے۔ ان میں سے صرف 5.4% پہلے انٹرویو میں کامیاب ہو کر اسائلم کا حق لینے والوں میں شامل ہوئے۔
بلیو کارڈ سکیم اگر ملک کی ضرورت پوری نہیں کررہی تو جو لوگ ملک میں موجود ہیں اور بیورو کریسی ان کے کام کرنے میں اوران کو ہنر مند بنانے میں رکاوٹ ہے تو اس رکاوٹ کو قانون سازی کرکے دور کیا جائے۔ ایک پاکستانی لڑکے دانش ملک نے 2015ء میں سیاسی پناہ کی درخواست دی لیکن اس کا اسائلم منظور نہیں ہوا۔ وہ جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے آبائی گاؤںمیں رہائش رکھتا ہے اور وہاں کے بیڈ منٹن کلب کا ممبر ہے۔ جس نے دانش کا اسائلم کیس ختم ہونے پر اس کی مدد کی اور مقامی انتظامیہ کو اس بات پر تیار کیا کہ اگر وہ میل نرس کا کورس کر لے تو اس کو جرمنی میں قیام کا مستقل ویزہ دے دیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں جب جرمنی چانسلر گاؤں کے ٹاؤن ہال میں گاؤں کے رہائشیوں سے ملاقات کی تو دانش بھی ان میں شامل تھا اور اس نے اپنا پوراقصہ جرمن چانسلر کو سنایا اور ان سے درخواست کی کہ پناہ گزینوں کو جرمن اداروں کے لئے قابل مفید بنانے پر غور کریں۔ جرمن چانسلر نے اس کو جواباً بتایا کہ حکومت اس پر کام کررہی ہے اور ایسی پالیسیاں سامنے آنے والی ہیں جن سے جرمنی میں سیاسی پناہ طلب کرنےو الوں کو فائدہ پہنچےگا۔
جرمن انڈسٹری کی طرف سے حکومت پر ڈالے جانےو الے دباؤ سے امید پیدا ہوئی ہے کہ لوگوں کو جرمنی سے ڈی پورٹ کرنے کی پالیسی پر حکومت نظر ثانی کرے گی اور جو لوگ جرمنی میںمستقل فیصلہ کے انتظار میں ہیں ان کے لئے پہلے سے نرم پالیسیاںبنا کر ان کی آبادکاری کی طرف متوجہ ہوگی۔ اس بارے میںحکومت اور Idustrieverbandکے درمیان مذکرات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور جلد مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔ لیکن یہ فائدہ ان لوگوں کے لئے کارآمد ہوگا جو کام کرنے اور ہنر سیکھنے پر تیار ہوں گے۔