تحریک ِ وقف ِ نو

محمد سلطان ظفر

لَنْ تَنَالُوالْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْ مِمَّاتُحِبُّوْنَ ط وَمَاتُنْفِقُوْ امِنْ شَیْ ئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ

(سورہ آلِ عمران آیت93)

ترجمہ: تم ہرگز نیکی کو پانہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کروجن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہوتو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

اسلامی تاریخ کا آغاز، مسلمانوں کی اعلیٰ ترین قربانیوں سے ہوا اور ان تمام قربانیوں کی اعلیٰ و ارفع مثال ہمارے پیارے آقا و مولا خاتم النبین حضرت محمدﷺ ہیں، جنہوں نے دورِ نبوت میںمیدہ کی روٹی تو کُجا چَھنے ہوئے آٹے کی روٹی بھی، کبھی نہ کھائی اور ہمیشہ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرتے رہے۔ اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے ، آپ  کے صحابہ ؓ بھی اپنے جان و مال اللہ تعالیٰ کے حضور بخوشی پیش کرتے رہے۔

            آج کے دور میں قربانی کا یہ جذبہ حقیقی رنگ میں صرف جماعت احمدیہ ہی اپنائے ہوئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، ان کے صحابہ ؓ ، خلفائے احمدیت اور ان کے غلاموں کی زندگیاں عظیم الشان قربانیوں کا مرقع ہیں۔ جن کی وجہ سے آج دنیاکے کروڑوں نفوس حقیقی اسلام کا پھل کھارہے ہیں۔

مقصد جتنا اعلیٰ اور عظیم ہو اس کے لئے محنت اور قربانی بھی اسی قدر زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام احمدیت کے لئے جو ترقیات مقدر کی ہیں، اُن کو حاصل کرنے کے لئے ہماری قربانیاں کا معیار بھی بلندپایہ ہونا ضروری ہے۔ اسی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 3اپریل 1987کو ایک عظیم الشان تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نام تحریک وقف ِنو ہے۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک پیش کرنے سے پہلے  انتہائی عارفانہ اور ایمان افروز انداز میں رسول کریم حضرت محمد ﷺ کی پاک سیرت کے اس پہلو سے روشناس کروایا جو آپ ﷺ کی عظیم قربانیوں سے  تعلق رکھتا ہے ۔ اور ہمیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرنا سکھلاتا ہے۔

تحریک ِ وقف نو کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے خود حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ ، تحریک وقفِ نو پیش کریں۔ آپ نے  فرمایا:

’’پس اس رنگ میں آپ اگلی صدی میں جو خدا کے حضور جو تحفے بھیجنے والے ہیں یا مسلسل بھیج رہے ہیں، مسلسل احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار چندے دے رہے ہیں۔ مالی قربانیاں کررہے ہیں، وقت کی قربانیاں کررہے ہیں۔ واقفین زندگی ہیں۔ ایک تحفہ جو مستقبل کا تحفہ ہے وہ باقی رہ گیا تھا۔ مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو بتادوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ عہد کرلیں جس کو بھی جو اولاد نصیب ہوگی وہ خدا کے حضور پیش کردے اور اگر آج کچھ مائیں حاملہ ہیں تو وہ بھی اس تحریک میں اگر پہلے شامل نہیں ہوسکی تھیں…تو اب ہوجائیں۔

(خطبہ جمعہ : 3اپریل1987بمقام مسجد فضل ،لندن)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ بات بھی بڑے واضح الفاظ میں ، مثالوں سے سمجھائی کہ اولاد کی قربانی، درحقیقت مال اور جان کی قربانی سے بڑھ کر ہے۔ آپ نے فرمایا:

…ہمایوں کے متعلق بھی بابرنے جب یہ سوچا کہ ہمایوں کی زندگی بچانے کے لئے میں خدا کے سامنے اپنی کوئی پیاری چیز پیش کروں تو کہتے ہیں کہ بابر اس کے گرد گھومتا رہا ، اس نے سوچا کہ میں یہ ہیرا جو مجھے بہت پیارا ہے دے دوں۔پھر خیال آیا کہ ہیرا کیا چیز ہے میں یہ دے دوں۔  پھر خیال آیا کہ پوری سلطنت مجھے بہت پیاری ہے میں پوری سلطنت دے دیتا ہوں اور پھر سوچتا رہا۔ پھر آخر اس کو خیال آیا۔ اس کے نفس نے اس کو بتایا کہ تجھے تو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ۔ اس وقت اس نے یہ عہد کیا اور خدا سے دعا کی کہ اے خدا واقعی اب میں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پیاری چیز میری جان ہے۔ اے خدا! تو میر ی جان لے لے اور میرے بیٹے کی جان بچالے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ واقعتا اس وقت کے بعد سے پھر ہمایوں کی صحت سدھرنے لگی اور بابر کی صحت بگڑنے لگی۔

(خطبہ جمعہ : 3اپریل1987بمقام مسجد فضل، لندن)

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریک وقف نو کے بارہ میں پانچ خطبہ ہائے جمعہ مندرجہ ذیل تاریخوں کو ارشاد فرمائے۔

۔  3اپریل 1987

۔ 10فروری 1989

۔17فروری 1989

۔ 8ستمبر 1989

۔یکم  دسمبر 1989

            نیز ہمارے پیارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 27جون 2003اور 18جون 2004 کو واقفینِ نو کے بارہ میں خطبات جمعہ ارشاد فرمائے  جن میں واقفینِ نو کی رہنمائی اور تربیت کے بارہ میں رہنمائی فرمائی۔

             28 اکتوبر 2016 کو مسجد بیت الاسلام ٹورانٹو کینیڈا میں خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واقفینِ نو کے بارہ نہایت باریکی سے تفصیلی لائحہ عمل بیان فرمایا۔

 تحریک وقف نو کی روح کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس کے بارہ میں جامع ہدایات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ بالا خطابات سننا، پڑھنا اور سمجھنا از حد ضروری ہے۔

            ان خطبات میں ہمارے پیارے خلفاء نے واقفینِ نو کی آئندہ زندگی کے ہر پہلو کا کماحقہُ احاطہ کیا ہے اور ہمیں ان تمام ہدایات سے نوازا ہے جن کی ہمیں مستقبل قریب و بعید میں ضرورت پیش آسکتی ہے۔ یہ خطبات واقفین و غیر واقفین بچوں کے لئے یکساں مشعل راہ ہیں۔ ہمارے پیارے خلفاء نے اپنے خطبات میں ، واقفینِ نو بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت ان کے مستقبل کے بعض ایسے پہلوں پر روشنی ڈالی ہے جن کو ایک عام انسان معمولی خیال کرتا ہے اور زیادہ توجہ نہیں دیتا۔

            اس سے بڑھ کر کیا خوش قسمتی ہوسکتی ہے کہ تمام دنیا کے واقفینِ نو کی تعلیم و تربیت ، خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بذاتِ خود فرماتے ہیں۔ گلشن وقف ِنو اور بوستانِ وقف ِ نو کے ناموں سے تیار ہونے والے پروگراموں میں حضور بنفسِ نفیس رونق افروز ہوکر بچوں میں علم و معرفت کے خزائن لٹاتے ہیں۔ یہ پروگرام TV پرایم ٹی اے انٹرنیشنل اورکمپیوٹر پر www.alislam.orgکے ذریعہ، دنیا کے ہر ملک میں باقاعدگی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔

             ایک بچہ کی قربانی بھی نسلوں کے سنوارنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ المسیح الاوّل کا واقعہ انتہائی ایمان افروز اور مشعل راہ ہے۔

 … ابھی آپ (حضرت حکیم مولوی نورالدین ، خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ)ریاست جموں و کشمیر میں تشریف نہیں لے گئے تھے بلکہ بھیرہ ہی میں قیام تھا۔ غالباً1872ء کی بات ہے کیونکہ روم اور روس میں جنگ ہورہی تھی اورہندوستان میں ہرروز خبریں مشہور ہوا کرتیں تھیں کہ آج اس قدر آدمی مارے گئے اور آج اس قدر مارے گئے۔ آپ کا گھر ماشاء اللہ سات بھائیوں اور دوبہنوں سے بھرا ہوا تھا اور سوائے آپ کے سارے ہی شادی شدہ تھے۔ آپ نے اپنی والدہ محترمہ سے کہا کہ اماں جی! دیکھئے ہمارے گھر میں ہرطرح امن و امان ہے اور کوئی فکر نہیں۔ آپ اپنی اولاد میں سے ایک بیٹے کو یعنی مجھ کو خداتعالیٰ کی راہ میں قربان کردیجئے۔ یہ سُنکر آپ کی والدہ نے فرمایا کہ ’’میرے سامنے بھلا یہ کیسے ہوسکتاہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں: میں خاموش ہورہا۔ اب سنو! تھوڑے ہی دنوں کے بعد ہمارے بھائی مرنے شروع ہوئے۔ جو مرتا اس کی بیوی جو اس کے ہاتھ آتالے کر گھر سے نکل جاتی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ باقی بھائی قبضہ کرلیں گے اور اسباب میرے قبضہ میں نہ رہے گا۔ رفتہ رفتہ سب مرگئے اور سارا گھر خالی ہوگیا۔ (اس کے بعد) جبکہ میرا تعلق ریاست جموں سے تھا۔ میں ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں اپنے مکان پر آیا۔ وہاں میں اس جگہ جو ہمارے مشترکہ خزانہ کی کوٹھڑی گھر کی عام نشست گاہ کے قریب تھی،دوپہر کے وقت سورہا تھا۔ میری والدہ قریب کے کمرہ میں آئیں۔ انہوں نے اس قدر زور سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں ان سے کہا کہ صبر کے کلمہ کو تو اس قدر بے صبری کے ساتھ نہیں کہاچاہئے۔ پھر میں نے اُن سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام گھر اب ویران اور خالی کیوں پڑا ہے؟ کہا کہ ہاں۔ مجھ کو وہ تیری اس روز کی بات خوب یاد ہے۔ اسی کا یہ اثر ہے کہ مجھ کو ہر ایک بیٹے کی موت کے وقت وہ بات یاد آتی رہی ہے۔ پھر میں نے کہا کہ اَور بھی کچھ سمجھ میں آیا؟ کہا کہ ہاں میں جانتی ہوں کہ میرا دم تیرے سامنے نہ نکلے گا بلکہ میں اس وقت مروں گی جبکہ تو یہاں نہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور قاضی امیر حسینؓ نے اس وقت موجود تھے، کفن دفن کا کام انجام دیا۔ میں اس وقت جموں میں تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے چاہا تھا کہ نورالدین کفن دفن میں شریک ہو اور ہم اِس کے سامنے فوت ہوں گے۔

(حیات ِ نور مؤلفہ حضرت عبدالقادر  [ سابق سوداگرمل] ص 99 ، 100سن اشاعت 2003ء)

مندرجہ بالا واقعہ تحریر کرنے کے بعد کتاب ’حیاتِ نور‘ کے مؤلف حضرت عبدالقادر کتاب کے اسی صفحہ پر اپنے نوٹ میں لکھتے ہیں۔

            ’’ اس واقعہ سے جماعت کے دوست اگر چاہیں تو بہت فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔ اولاد بے شک ہر شخص کو عزیز ہوتی ہے لیکن اولاد کی زندگی اور موت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ پھر کون جانتا ہے کہ اس کی اولاد نیک ہوکر اس کے نام کو روشن کرے گی۔ یا بد ہوکر اس کے خاندان کو بدنام کردے گی۔ اس لئے ومما رزقنٰھم ینفقون کی تعلیم کے مطابق ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو بھی عطایات الٰہیہ میں سے سمجھ کر اپنے کسی نہ کسی بچہ کو فی سبیل اللہ وقف کرے اور پھر دیکھے کہ وہ کس قدر انعامات الٰہیہ میں سے حصہ پاتا ہے۔ دیکھ لیجئے، حضرت خلیفۃ المسیح ؓ نے اپنے آپ کو وقف کرکے جناب الہی سے کس قدر انعامات پائے۔ اگر آپ کی والدہ ماجدہ بھی خوشی کے ساتھ آپ کو وقف کرنے کے لئے تیارہوجاتیں تو ہوسکتا تھا کہ اس قربانی کے بدلہ میں اپنی دوسری اولاد کو بھی اپنی آنکھوں کے سامنے سرسبز اور بابرگ وبار ہوتے دیکھتیں۔

            اس واقعہ میں ان بچوں کے لئے بھی ایک قیمتی سبق موجود ہے جو کہا کرتے ہیں کہ ہم تو زندگی وقف کرنے کے لئے تیارہیں۔ لیکن والدین اجازت نہیں دیتے۔ وہ اگر چاہیں تو حضرت مولوی صاحب ؓ کی زندگی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ پھر یہ واقعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ جو لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنے بچہ کو وقف کردیں تو وہ کھائے گا کہاں سے اور پہنے گا کہاں سے؟ اس کے دوسرے بھائی تو دنیا میں عزت و آرام کی زندگی بسر کریں گے لیکن یہ واقف زندگی ان کو دیکھ دیکھ کر پیچ و تاب کھاتا رہے گا۔ لیکن ان کا یہ خدشہ بالکل موہوم ہے۔ حضرت ؓ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ شاہد ہے کہ وہ جواپنے آپ کو کامل طور پر خدا کے سپرد کردیتے ہیں۔ خداتعالیٰ خود ان کا متکفل ہوجاتاہے۔ ‘‘

            تحریکِ وقفِ نو کوئی عام دنیاوی تحریک نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی عظیم تحریک ہے جو خد ا کے حکم سے شروع کی گئی ہے اور جس کی نگرانی خلیفۃ المسیح کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لئے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان ننھے ننھے پودوں کی حفاظت اور تربیت کے دوران اپنے عمل، صبر اور دعائوں سے اپنی قربانیوں کا معیار اتنا اعلیٰ کرنے پڑے گا ، جو مالی قربانیوں کے معیار سے بھی بڑھ کر ہو اور جان کی قربانیوں کے معیار سے بھی بڑھ کر ہو۔ اسی صورت میں ہم یہ ثابت کرسکیں گے کہ بچوں کی قربانی جان و مال کی قربانی سے بڑھ کر ہے۔

            یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ 1987میں پیدا ہونے والے واقفینِ نو، ہماری آنکھوں کے سامنے جوان ہورہے ہیں اورعملی زندگیوں میں قدم رکھ چکے ہیں۔ یقینی طور پر یہ بھی احمدیت کی سچائی اور الہی قدرت کا ایک نشان ہے کہ آج سے سترہ سال قبل، جب اسلام احمدیت قبول کرنے والوں کی تعداد اوسطاً ایک لاکھ سالانہ بھی نہ تھی تو خدا نے کروڑوں نئے احمدیوں کو سنبھالنے کے لئے ایسا بیج بویا جس کی فصل عین ضرورت کے وقت تیار ہو۔

            تادمِ تحریرپچاس  ہزار سے زائد مجاہدین، خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی سرکردگی میں، ایسی فوج میں شامل ہوچکے ہیں جس کے ہاتھ میں تلوار کی بجائے قرآنی دلائل ہیں۔

            کہاوت ہے کہ بچوں کی تربیت ان کی پیدائش سے بھی اٹھارہ ، بیس سال پہلے شروع ہوجاتی ہے۔ یعنی ، اگر ماں کی تربیت اعلیٰ ہوگی تو اس کے بچوں کی تربیت خودبخود ہوجائے گی۔ آج آٹھ ہزار سے زائد بچیاں اس بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ ان بچیوں کی تعلیم و تربیت جس اعلیٰ میعار سے ہورہی ہے اس کی ادنیٰ مثال بھی پوری دنیا میں نظر نہیں آسکتی ۔ اور صرف چند سالوں کے بعد جب ان کی نسل دینی و دنیاوی علوم سے مکمل طور پر لیس ہو کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا جھنڈاپوری دنیا میں گاڑنے کے لئے نکلے گی تو کس میں طاقت ہوگی جو اسلام کی فتح میں رکاوٹ بن سکے؟

            یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسلام احمدیت میں بچیوں کی تربیت اور تعلیم ایک نہایت اہم مقام رکھتی ہے۔ اس اہمیت کو ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ، ہمیں یوں روشناس کروایا ہے۔

…تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں۔ اور جب مرد فوت ہوگئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنی اگلی نسل کو بچاسکیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طور پر دین کا علم پیدا کرنے اور اگلی نسلوں میں قائم کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 18جون2004)

            اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔     

وَاعْلَمُوْٓ ا اَنَّمَآاَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ لاوَّاَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌعَظِیْمٌ

( سورہ الانفال آیت 29)

ترجمہ: اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمھاری اولاد محض ایک آزمائش ہیں اور یہ (بھی) کہ اللہ کے پاس ایک بہت بڑا اَجر ہے۔

            مندرجہ بالا آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت ایک بارِ عظیم ہے۔ اور اس سے کماحقہ عہدہ برآہ ہونا بہت زیادہ محنت ، توجہ اور سب سے بڑھ کر دعائوں کا متقاضی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خوش خبری ہے کہ اگر ہم اس امتحان میں کامیاب ہوجائیں تو اس کا اجربھی عظیم ہے۔

             تحریک وقف نو ایسی تحریک ہے جو ہمارے بچوں کو ہرقسم کے تربیتی مسائل سے محفوظ رکھے گی۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ ان پر شیطانی حملے نہیں ہوں گے، شاید عام بچوں سے زائد ہی ہوں لیکن یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نقصان کا احتمال کم ترین ہوگا۔ ان شاء اللہ۔