افطار پارٹیاں کیسی ہونی چاہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں

’’پس افطاریوں میں بھی بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے ہمسایوں کو دیکھیں، ارد گرد جگہ تلاش کریں اور روزمرہ واقف جو آپ کے دکھائی دیتے ہیں ان کو بھیجیں مگر صدقے کے رنگ میں نہیں۔ کیونکہ افطاری کا جو تعلق ہے وہ صدقے سے نہیں ہے۔ افطاری کا تعلق محبت بڑھانے سے ہے اوررمضان کے مہینے میں اگر آپ کچھ کھانا بنا کے بھیجتے ہیں تو طبعی طور پر محبت بھی بڑھتی ہے اور دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اگرآپ اس عزت اور احترام سے چیز دیں کسی غریب کو یا ایسے شخص کو جو نسبتاً غریب ہے کہ اس میں محبت کا پہلو غالب ہو اور صدقے کا کوئی دور کا عنصر بھی شامل نہ ہو تویہ وہ افطاری ہے جو آپ کے لئے باعث ثواب بنے گی اور آپ کے حالات بھی سدھارے گی۔

…مگر جب آپ افطاری کی دعوتیں کرتے ہیں تو بعض دفعہ بالکل برعکس نتیجہ ظاہر ہوتاہے ۔ بجائے اس کے کہ روزہ کھول کے انسان ذکر الٰہی میں مصروف ہو قرآن کریم کی تلاوت کرے جو تراویح پڑھتے ہیں وہ تراویح کے لئے تیار ہو کر جائیں اس کی بجائے مجلسیں لگ جاتی ہیں جو بعض دفعہ اتنی لمبی چل جاتی ہیں کہ عبادتیں بھی ضائع ہونے لگتی ہیں اور اگراس دن کی عشاء کی نماز پڑھ بھی لیں وقت کے اوپر تو دوسرے دن تہجد کی نماز پر اثر پڑ جائے گا۔

…رمضان کے مہینے میں یہ مشاغل کرنا اس قسم کے یہ میرے نزدیک رمضان کے مقاصد سے متصادم ہے۔ اس سے ٹکرانے والی بات ہے۔ تو جو افطاریاں ہو چکیں پہلے ہفتے میں ہو گئیں آئندہ سے توبہ کریں اورمجالس نہ لگائیں گھروں میں۔ مجالس وہی ہیں جو ذکر الٰہی کی مجلسیں ہیں اور افطاری کی مجلسوں کو میں نے نہیں کبھی ذکر الٰہی کی مجلسوں میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ پھر وہ سجاوٹ کی مجلسیں بن جاتی ہیں، اچھے کپڑے پہن کر عورتیں ، بچے جاتے ہیں۔ وہاں خوب گپیں لگائی جاتی ہیں، کھانے کی تعریفیں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے دن اپنے تہجد کو ضائع کردیتے ہیں اور پھر بے ضرورت باتیں بہت ہوتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جنوری 1997)