(تحریر : فرحانہ ظفر )
ماہِ اپریل کے حوالہ سے کینیڈا کی ایک تاریخی جنگ
Battle of Vimy Ridge
جس کے نتیجہ میں کینیڈا کو نئی شناخت ملی۔
تعارف
وِمی رِج کی جنگ 9 اپریل 1917 سے 12 اپریل 1917 تک لڑی گئی۔ یہ جنگ وِمی ، فرانس میں لڑی گئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جرمن افواج نے وِمی رِج کے علاقہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ برطانوی اور فرانسیسی افواج نے قبضہ چھڑانے کے لئے بڑی کوشش کی مگر جرمن افواج اپنا قبضہ مضبوط سے مضبوط کرتی گئیں۔ بلآخر 1917 میں کینیڈین افواج کو قبضہ چھڑوانے کا ٹاسک دیا گیا جو انہوں نے کماحقہ پورا کیا ۔
اہمیت
وِمی رِج کی جنگ کو جنگِ عظیم اول کی اہم ترین جنگ قرار دیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں کینیڈین فوج کے چاروں ڈویژن شانہ بشانہ لڑے۔ اس جنگ کے بعدکینیڈا کی بطور مملکت شناخت دُنیا کے سامنے آئی نیز اس کے نتیجہ میں کینیڈا کو برطانیہ کی ایک کالونی سے ایک آزاد ملک کی حیثیت حاصل کرنے میں مدد ملی۔
پس منظر
جنگِ عظیم دوم کے آغاز میں ہی جرمن افواج نے وِمی کی پہاڑی اور اس کے پار قصبوں پر قبضہ کرلیا تھا جو تین سال تک برقرار رہا۔ برطانوی اور فرانسیسی افواج تین سال تک مسلسل کوشش کرتی رہیں کہ یہ قبضہ چھڑوایا جائے مگر ناکام رہیں۔ بالآخر برطانوی جنرلز نے کینیڈین افواج کو یہ قبضہ چھڑوانے کا ٹاسک دیا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ایک خودکش مشن ہے مگر کینیڈین افواج نے بڑی ہمت سے اس جنگ میں کامیابی حاصل کی۔
جنگ کا وقت اور مقام
وِمی رِج کی جنگ صرف چار دن جاری رہی۔ یہ 9 اپریل 1917 کو صبح ساڑھے پانچ بجے شروع ہوئی اور 12 اپریل 1917 کو ختم ہوگئی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ وِمی کے مقام پر لڑی گئی جو پیرس کے شمال میں 175 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وِمی رِج کا علاقہ شمالی فرانس میں اونچائی پر واقع ہے۔ اس کے ایک طرف وِمی ، گِوِنچی ان گولے اور فاربس کے صعنتی قصبے واقع تھے دوسری طرف ڈوآئی کے میدان۔

تیاری
میجرجنرل آرتھر کیوری جو کہ سیکنڈ اِن کمانڈ تھا ، نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کینیڈین افواج مکمل طور پر تیار ہیں۔ آرتھر کیوری نے منصوبہ بندی پر کئی ہفتے صرف کئے۔ زمینی اور فضائی نقشے ، تمام افسروں اور سپاہیوں کو اچھی طرح سے سمجھائے گئے۔ اور فوج نے اس جنگ کی باقاعدہ مشق کی۔ کئی نئے طریقہ کار طے کئے گئے جن میں ایک creeping barrage تھا۔ اس طریقہ کار میں فوج اور توپ خانہ بیک وقت حرکت کرتا ہے اور اس میں وقت اور رفتار میں توازن سوفیصد درست ہونا لازمی ہے۔ جب پیدل فوج آگے بڑھتی ہے تو توپ خانہ ان کے سامنے کچھ فاصلے پر گولے داغاتا ہے ۔ ایسے میں اگر پیدل فوج یا توپ خانہ وقت اور رفتار کو متوازن نہ رکھ سکے تو نتیجہ میں یا تو گولے اپنے ہی سپاہیوں پر گریں گے یا اتنی دور گریں گے کہ مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ اس طریقہ کار کو طے کرنے کے بعد کینیڈین افواج نے زیرزمین سرنگیں تیار کی جن کی مدد سے افواج اور اسلحہ میدان جنگ کے بالکل قریب پہنچادیا گیا۔

Kreeping Barrage
کی ایک مثال
حالات ِ جنگ
اصل حملہ سے پہلے کینیڈین افواج نے مسلسل سات دن ، جرمن افواج پر گولہ باری کی۔ اور پھر9 اپریل 1917 کو ایسٹر والے پیر کو کینیڈین افواج نے وِمی رِج پر بھرپور حملہ کردیا۔ کینیڈین توپوں کے گولے جہاں جہاں گر ررہے تھے اس سے ذرا سے پیچھے رہ کر کینیڈین سپاہی آگے بڑھتے رہے جس سے جرمن افواج حیرت زدہ رہ گئی۔ پندرہ ہزار پیدل سپاہیوں نے وِمی رِج پر قبضہ کرنا شروع کردیا بلکہ یوں کہ قبضہ چھڑانا شروع کردیا۔ کینیڈین سپاہیوں کوسخت جانی نقصان اٹھانا پڑا، اُن کے سپاہی اور افسران جان دیتے رہے مگر وہ بڑی ہمت ، جوش اور ولولے سے آگے بڑھتے رہے۔ پہلے تین گھنٹوں میں چوٹی پر قبضہ کرلیا گیا اور اگلے تین دنوں میں پورے علاقے پر کینیڈین افواج کا کنٹرول ہوگیا۔ اس جنگ میں دونوں طرف سے بھاری اسلحہ کا بھر پور استعمال کیا گیا اور حقیقتاً ایک چپہ بھی ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی گولہ نہ گرا ہو۔ ہر طرف نعشیں اور زخمی سپاہی بکھرے ہوئے تھے۔

اس جنگ میں تین ہزار پانچ سو اٹھانوے کینیڈین نے اپنی جان کی قربانی پیش کی جبکہ سات ہزار چار فوجی زخمی ہوئے اور معذور ہوگئے۔ جبکہ بیس ہزار کے قریب جرمن سپاہی اپنی جان ہارگئے اور چار ہزار جنگی قیدی بنائے گئے۔
اس جنگ کا اختتام کینیڈا کے ایک نئے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اب کینیڈا کو برطانیہ کے ایک غلام ملک کی بجائے ’’کینیڈا‘‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔
فرانس نے شکریہ کے اظہار کے لئے اس میدان جنگ کی جگہ کو کینیڈا کو تحفتاً پیش کردیا۔ کینیڈین وِمی میموریل اس کی ہِل 145 پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس تاریخی یادگار پر ان تمام سپاہیوں کے نام کنندہ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں اس جنگ کی نظر کیں یا گمشدہ ہوگئے ۔
