قبر کشائی مکرم فیروز دین صاحب

محمد احمد ظفر، احمد نگر، ربوہ

            مکرم فیروز دین صاحب آف کڑیالہ ضلع حافظ آباد 22 جولائی 2003ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے تھے۔ وفات کے اگلے روز مقامی مشترکہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی تھی۔ مذکورہ مشترکہ قبرستان میں قبل ازیں مرحوم کے بہنوئی مرحوم بھی مدفون تھے۔

           تدفین کے بعد ختم نبوت اور سپاہ صحابہ تنظیموں کے وفود قبرکشائی کی غرض سے ضلعی انتظامیہ سے ملتے رہے اور پولیس اہلکاران گاوں آکر اس ضمن میں انکوائری بھی کرتے رہے۔

ایس ایچ او کی طرف سے استفسار اور رائے طلب کرنے پر علاقہ کے سرکردہ افراد بشمول ناظم یونین کونسل نے مشترکہ دستخطوں کے ساتھ تحریری درخواست کی کہ ہم لوگ یہاں اتفاق اور محبت سے رہ رہے ہیں۔ ہمیں اس تدفین پر کوئی اعتراض نہ ہے۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ان دونوں احمدی مرحومین کی قبریں جس جگہ واقع تھیں وہ رقبہ ان کے قریبی غیرازجماعت عزیز مکرم ہارون احمد صاحب کی ملکیت ہے۔ انہیں اس تدفین پر کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ عدالت میں جاکر بیان دینے پر تیار تھے کہ میں نے یہ رقبہ قبرستان کے لئے دیا ہوا ہے اور مجھے ان مرحومین کی قبروں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

قبرکشائی کے خدشہ کے پیش نظر مقامی عدالت میں دعویٰ دائر کیا گیا۔ عدالت نے حکمِ امتناعی جاری کردیا ۔ لٹریچر اور واجب القتل کے فتوے تقسیم کرتے رہے۔ حافظ آباد شہر میں قبر کشائی کے لئے قراردادیں منظور کی جاتی رہیں۔

مخالفین کی طرف سے گوجرانوالہ سے ختم نبوت کے ایک عہدیدار مولوی حافظ محمد ثاقب نے مقدمہ کی تاریخوں پر جانا شروع کردیا۔ جس کے نتیجہ میں سول جج حافظ آباد محمد امجد خان نے جاری شدہ حکم ِ امتناعی کو کنفر کرنے سے انکار کردیا اور ہماری درخواست برائے حکم ِ امتناعی خارج کردی گئی۔

اگلے روز مخالفین نے قبرکشائی کی اجازت کے لئے سیشن کورٹ حافظ آباد میں درخواست دائر کردی جو ایڈیشنل سیشن جج حافظ آباد کو مارک ہوئی۔ ہماری طرف سے بھی متذکرہ بالا فیصلہ کے خلاف اپیل پر ایڈیشنل سیشن جج جناب مظہر حسین صاحب نے سول جج محمد امجد خان کا حکم امتناعی خارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اور اپنے فیصلہ میں لکھا کہ متنازعہ قبر مسلمانوں کے قبرستان میں نہ ہے اور قبرستان سے ملحقہ ملکیتی رقبہ محمد ہارون کے رقبہ میں ہے اور مزید یہ کہ رقبہ برائے قبرستان نہیں ہے۔ قبرستان کا رقبہ دوسری جگہ ہے۔ مخالف فریق نے یہاں زبردستی قبریں بنارکھی ہیں۔ اس فیصلہ کے بعد خیال تھا کہ مخالفین آخری کوشش کے طور پر ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔

مگر 10 اور 11 جولائی 2004 کی درمیانی شب مخالفین نے مرحوم کی قبر اکھاڑ کر نعش کو قبر سے نکال کر غائب کردیا۔ اطلاع ملنے پر نعش کی تلاش کا عمل شروع ہوا مگر کامیابی نہ مل سکی۔ پولیس کو اطلاع دی گئی۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے یہ کر انکار کردیا کہ اعلیٰ حکام سے رابطہ اور اہنمائی کے بعد ایف آئی آر درج کی جائے گی۔ تاہم بعد میں پولیس نے 18 افراد کے خلاف 201/297 مقدمہ درج کرلیا اور کچھ عرصہ بعد ان سب افراد کو تفتیش میں ہی بے گناہ قرار دے دیا۔ بعد میں نہ تو مرحوم کی نعش بازیاب ہوسکی اور نہ ہی تاحال مرحوم کی نعش کی بابت کوئی سراغ مل سکا ہے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ