صغریٰ بیگم صاحبہ

ریحانہ شاہین رضا ۔ صدر لجنہ اماء اللہ حلقہ مسجد فضل لندن یوکے

ماں خدا کا ایک انمول تحفہ ہے ۔ ماں ! جس کے قدموں تلے جنت ہے ، خوبصورتی ، محبت اور عظمت کا پیکر ، میری ماں ،جن کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً 25 سال بیت گئے مگر آج بھی اس عظیم وجود کی یاد خوشبو بن کر ہر جگہ میرے ساتھ رہتی ہے ۔

میری پیاری والدہ صغر ی بیگم، چوہدری  محمد  یوسف صاحب نمبر دار کےگھر  قادیان کے قریب ایک گاوں غوث گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ غوث گڑھ اور رام گڑھ قریب قریب دو گاوں ہیں جن میں احمدیت صحابی عبداالله سنوری صاحبؓ کے توسط سے پھیلی۔ میری نانی جان  ، رقیہ بیگم اپنی فیملی کی واحد احمدی خاتون تھیں . اپنے خاندان کی مخالفت کا سامنا کیا ۔ اپنے قریبی رشتہ داروں اور بہن بھائیوں کو چھوڑا لیکن احمدیت پر قائم رہیں ۔ بلکہ اعلی درجہ کا نمونہ بنیں ۔  خلافت سے محبت اور احمدیت کی شیدائی تھیں  ۔ بہشتی مقبرە میں مدفون ہیں ۔ 1/5کی وصیت کی – اپنی اولاد کے دل میں دین اور خلافت سے  محبت پیدا کی ۔ علم کی محبت راسخ کی ۔ اللہ تعالٰی  انکے درجات  بلند  فرمائے اور ھزاروں  رحمتیں نازل فرمائے آمین۔

محترمہ رقیہ بیگم صاحبہ کا تفصلی  ذکرِ خیر ، بادِ شمال کے فروری 2019 کے شمارہ میں موجود ہے

 میری والدە صاحبہ کا رشتہ عبدالله سنوری صاحب نے تجویز کیاتھا . والد صاحب چودھری محمد یوسف رام گڑھ کے رہنے والے تھے ۔ واقفِ زندگی تھے  اور پنجاب یونیورسٹی سےعر بی فاضل میں  گولڈ میڈلسٹ تھے. شادی سے پہلے والدە صاحبہ نے خواب دیکھا کہ ایک درخت ہے ، پیسے لگے ہوے ہیں جو گِر رہے ہیں ، لوگ اٹھا رہے ہیں وە بھی اٹھانے لگتی ہیں ۔ ایک بزرگ کہتے ہیں یہ درخت ہی تمہارا ہے ۔ جس کی تعبیر و ە یہ کرتی تھیں کہ ان کے شوہر یعنی میرے والد صاحب علم کا خزانہ تھے ۔ عربی ، فارسی ،انگلش اور اردو میں ماہر تھے. امیرِ جماعت بھیرە رہے، قضا بورڈ کے ممبر رہے،جامعہ میں استاد رہے۔

            امی جان بہت خوش شکل ، مہمان نواز، سمجھدار ،  دور اندیش  ،خوش لباس اور خدا پہ توکل رکھنے والی خاتون تھیں۔ صوم و صلاۃ کی پابند تھیں ۔ بہت پیار کرنے والی٬ شفیق٬ احمدیت کی شیدائی ،  غریب پرور اور مددگار تھیں۔بہت  مہمان  نواز  تھیں۔

ہمارے بچپن میں ایک  ہی  ٹی وی چینل ہوتا تھا  اور شام کو ڈرامہ آتا تھا ۔ اکثراس وقت مجھے ساتھ لے جاتیں اور غریبوں کے گھروں میں کھانا پہنچاتی تھیں۔ تب مجھے لگتا کہ ڈرامہ رە جاتا ہے ۔تو  کہتیں “اس وقت سب لوگ گھروں میں مصروف ہوتے ہیں۔  میں نہیں چاہتی کہ کسی کو پتہ لگے” ۔

            چندە باقاعدگی سے دیتی تھیں۔ سال کے شروع میں اعلان ہوتے ہی چندە ادا کر دیتیں ۔ موصیہ تھیں جو بھی کوئی تحفہ ملتا اُس پر وصئیت ادا کرتیں ۔ تعلیم کا بہت شوق تھا۔ اپنے بچوں کے علاوە رشتہ داروں اور محلے والے بچوں کو بھی گھر پر تعلیم دلوائی ۔ خود تھوڑا پڑھی لکھی تھیں مگر بچوں کو پڑھانے کا بہت شوق تھا کہ سب بچے علم حاصل کریں۔ اگر کوئی پوچھتا کہ کتنی پڑھی ہیں تو کہتیں بہت سے ایم۔اے کیے ہیں۔  یعنی جو میرے بچے پڑھتے ہیں وە میں بھی پڑھتی ہوں۔

 جماعتی خدمت کا بہت شوق تھا۔ ہم سب کے دلوں میں بچپن سے ہی یہی ڈالا۔ کہ زندگی کا اصل مقصد جماعت کی خدمت ہے۔ ہم جب جماعت کی خدمت سرانجام دیتے تو بہت خوش ہوتیں۔ اکثر فرماتی تھیں کہ تم جماعت کا کام کرو میں گھر کا کام کر لونگی۔ بہت محنتی خاتون تھیں ۔ ہر وقت خود بھی صاف ستھری رہتیں اور گھر بھی ہمیمشہ چمکتا تھا۔  کہتی تھیں کہ کام تو بندے پر الله کا کرم ہے کچھ نا کچھ کام کرتے رہنا چاہیے۔ تہجد گزار اور  نمازوں کی پابند تھیں  ۔ دیر تک سونے کو ناپسند کرتی تھیں۔ اکثر کہتی : ’’سونا سونا نہ کر  بندے تو جاگن نوں پچھتانا ‘‘

کام کرتے ہوئے درود شریف اور دعائیں پڑھتی رہتیں ۔ ہمیں بھی اکثر یہ نصیحت کرتیں کہ اگر رات کو نیند میں کسی وجہ سے آنکھ کھل جائے تو اٹھ کر کم از کم دونفل ضرور پڑھ لیا کریں یہ بھی مقام شکر ہوتا ھے۔ سادا مزاج ، مگر انتہائی صفائی پسند تھیں ۔ صبح کپڑے بدل کے کنگھی کرکے کام شروع کرتیں ۔اور ہمیں بھی کہتیں کہ نہا دھو کر آوٴ۔ رات کو سونے سے پہلے کنگھی کر کہ صاف کپڑے پہن کر سوتیں ۔ اکثر ہمیں واقعہ سناتیں کہ ایک عالم تھا اور ایک ان پڑھ تھا ۔ ابھی دو لفظ ھی سیکھے تھے۔ ایک رات عالم اور ان پڑھ شخص اکھٹے عبادت کر رہے تھے عالم کو بہت دعائیں یاد تھیں وە پڑھ رہا تھا۔ جبکہ وە بیچارە دو لفظ بھی بھو ل گیا الٹےپھڑ نے لگا عالم دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ دو لفظ صحیح نہیں پڑھ سکتا کیسا جاہل انسان ہے۔ صبح  خدا نے اسے بتایا کہ اس ان پڑھ کے سب گناە معاف ہوگیے۔ تمھاری عبادت ضائع چلی گی کہ وە صاف نیت سے عبادت کر رہا تھااورتم اپنے عالم ہو نے پہ فخر کر رہے تھے۔ اس لیے ہمیشہ یہ نصیحت کرتیں کہ کبھی غرور نہ کرو۔ بے جا فخر نہ کرو حسد نہ کرو ۔ دل میں کدورت نہ رکھو۔

امی جان کو انسانیت سے بہت پیار تھا۔ غریب اور امیر میں فرق نہیں کرتیں تھیں۔ بعض اوقات اگر کام والی کی طبیعت خراب ہوتی تو گھر میں اس کی خدمت کرتیں۔ ہر طرح اس کے آرام کا خیال رکھتیں ۔ جب بھی کوئی اچھا کھانا بنتا سب سے پہلے غریبوں کے گھر بھجواتیں۔ رشتہ داروں  کے حقوق کا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ گھر میں جب بھی مہمان آتے اُن کی کوشش ہوتی کہ بہترین کھانا اُن کے لیے تیار کریں اور تحفے بھی بہت شوق سے دیتیں ۔

 16 دسمبر 1991 کو  میں شادی ہوکر جرمنی آئی تھی ۔ میری اپنی والدە سے یہ آخری ملاقات تھی۔ امی جان نے فون پر بھی بہت سی نصیحتیں کیں تھی کہ مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں اُن کے متعلق ۔ اپنے گھر میں دل لگاؤں ، زبان سیکھوں ۔ بچوں کوقرآن پڑھایا  کروں ،نماز پڑھا کروں، جماعتی کام کیا کروں ، تبلیغ کروں۔ ان کو شوق تھا کہ میرے بچے ہر کام کر سکیں۔ زندگی میں کسی بھی کام کو کرنے کی ضرورت پڑ  سکتی ہے۔ ہر کام سیکھنا چاھے۔ اللہ  کے فضل سے  میری تین بھا بیاں ہ۔یں امی جان کا ان سب کے ساتھ  بہت  ہی پیار  وشفقت  کا سلوک  تھا ۔ بڑے بھائی جان کےساتھ  بہت خاص لگا و تھا ۔بھائی جان  ایم  ۔اے انگلش  کرنے کے بعد وقف کر کےنائجر یا چلے گئے  ان کے لیے بہت  اداس رہتی  تھیں۔ اس وقت خط بھی کافی مدت بعد ملتے تھے۔  ایرو گرام ہوتا تھا۔ امی جان کو بہت شدت سے ڈاکیے کا انتظار  ہوتا تھا۔  اکثر جب خط آتا  توکچھ میٹھا بناتی یا مٹھائی کھلا تیں۔ بار بار دعا کرنے کی یاددہانی کرواتی ۔بار بار خط کو سنتیں اور خوش ہوتیں۔  کچھ بھی اچھا  پکتا تواداس  ہوتیں  کہ وہاں یہ سہولتیں  میسر  نہیں ہر وقت سب واقفین کے لے دعاگو  رہ۔تیں    جب بڑی بھابی بیٹی کی پیدائش کے لیے پاکستان  آئیں تو ماں سے بڑھ کر  پھولوں  کی  طرح خیال رکھا بہت خدمت   کی  اس لیے کہ وہ ان کے پیارے بیٹے کی بیوی تھی  جو نائجیریا  میں جماعت کی خدمت  میں مصروف  تھا۔

  اپنے سب رشتہ دار و ں کےساتھ بہت  پیار کا سلوک روا رکھا۔ سب کے حقو ق کا بہت  خیال رکھتیں۔  ابا جان امیر جماعت تھے گھر میں مہمانوں  کا بہت آنا جانا  ہو تا تھا بہت خوش دلی سے خاطر تواضع  کر تیں ،علاج معالجے  کے لیے،  شاپنگ کے لیے،  پڑھائی کے لیے،   ہر طرح  کے مہمان بوتے تھے لیکن امی جاں کے ماتھے کھبی بھی شکن نہیں دیکھی۔

  امی جان کا 1992   میں ایک آپریشن ہوا جو کامیاب نہ ہوا۔ اس کے بعد امی  مکمل صحت مند نہیں ہوئیں۔ آخری دو ماہ تو بیڈ پہ ہی تھیں میری دو بھابیوں کو خدمت کی توفیق ملی۔ منجھلی بھابی  نجم انساء صاحبہ اور  آصفہ صاحبہ  نے بہت خدمت  کی۔دن رات ایک کیا اور امی  جان کے آرام کا بہت  ہی خیال رکھا  ۔امی جان ان کی بہت شکرگزار تھیں ان کےلیے بہت دعائیں کرتیں۔ خدا تعالی بھابیوں کو بہترین اجر دیے، انکو اپنی اولاد  کی خوشیوں  سے نوازے آمین ۔ امی  جان نے بیماری میں  بہت صبر سے کام لیا ۔اللہ  کی رضا  میں ہمیشہ  راضی  رہیں۔ 

بیس فروری  1993 کو امی جان  اپنے  خالق حقیقی سے جا ملیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

بلانے والا ہے سب سے پیارا 
اے دل اسی پہ جاں فدا کر

‎            امی جان کی تربیت کا ہی اثر ہے محض اللہ  کا فضل ہے  کہ ہم سب بہن بھائی جماعتی خدمات کی توفیق  پا رھے  ہیں۔  ایک بھائی نیشنل سکرٹری مال  کینیڈاہیں۔  دوسرے امیر جماعت پیس ولیج (ٹورانٹو) ہیں۔ اور ہم تین بیٹیاں بطور صدرلجنہ  حلقہ جات: لاہور ، جرمنی  اور لندن میں خدمات کی توفیق پارہی ہیں۔

‎ الله تعالیٰ میرے والدین کے درجات بلند کرے۔ جنت الفردوس میں اعلی مقام  دےاورہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔‎آمین ۔