(محمد سلطان ظفر )
یورپ اور امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک میں بسنے والے لوگ، عموماً خود کو ترقی پذیر ممالک خصوصاً مسلمان ممالک سے انسانی حقوق کے حوالے سے بہتر گردانتے ہیں اور مسلمانوں کی اس حالت کی وجہ اسلامی تعلیمات کو سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس تقابلی تجزئیے کے دوران ، غیرمسلم ایک نہایت اہم پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ تقابلی جائزہ ان ممالک کے مذاہب یعنی یہودیت اور عیسائیت کا اسلام سے ہونا چاہئے اور ان کے علاقائی، ملکی معاشرے کا مسلمان ممالک کے علاقائی معاشرے اور رہن سہن سے ، نہ کہ کسی ایک مذہب کا تقابلی جائزہ کسی دوسرے ملک کے خالصتاً علاقائی کلچر اور معاشرے سے۔ زیرِنظر مضمون میں چند ایسی باتوں کا جائزہ لیا جارہا ہے جن کے بارہ میں عموماً گفتگو ہوتی رہتی ہے۔
اسلام: مذہب ِکامل
اسلام پر ایک اعتراض عام ہوتا ہے کہ اسلام نے ، یہودیت اور عیسائیت کی تعلیمات سے ہی کچھ چیزیں ملاجلا کر ایک نیا مذہب پیش کردیا ہے اور اس میں کوئی بھی نئی بات نہیں ہے۔حالانکہ اسلام کا یہ قطی طور پر دعویٰ نہیں کہ اسلام یہودیت اور عیسائیت کے ’’مقابل‘‘ پر کوئی مذہب ہے یا اسلام کو کسی اور ـ’’خدا‘‘ نے تخلیق کیا ہے لہذا یہ آمنے سامنے مقابلہ کرنے والے دشمن مذاہب ہیں۔ بلکہ اسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ مذاہب کے تسلسل کو ہی مزید بہتر بنا کر مکمل کردیا ہے اور یہ وہی خدا ہے جس نے یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم دی۔ قرآن کریم میں ہے۔
تو کہہ دے ہم ایمان لے آئے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم پر اتارا گیا اور اسماعیل پر اور اسحق پر اور یعقوب پر اور(اس کی) نسلوں پر اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو اور جو نبیوں کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔
( اٰل عمرٰن : آیت نمبر 85)
اسلام بطور دین کس طرح کامل ہوگیا ہے اور اس کے کون سے اصول ہیں جن کی بناء پر اسلام کو دائمی قرار دیا جاتا ہے ؟ اس کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے۔
بنی اسرائیل پرمظالم کی انتہاہوگئی تھی ۔ اُن کو تکلیفیں دے دے کر ایسے مقام پر پہنچادیا گیا تھا کہ وہ بے بس ہو کررہ گئے تھے اور بالآخران کی غیرت بالکل مرگئی۔ لہذا ان پرحضرت موسی علیہ السلام کے ذریعہ ایسی شریعت نازل ہوئی جس میں ان کو حکم دیا گیا کہ وہ ظلم کے نتیجہ میں خاموش مت بیٹھیں اور بھرپور بدلہ لیں۔
’’اور جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔ ساری جماعت اُسے قطعی سنگسار کرے۔ خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی جب وہ پاک نام پر کفر بکے تو وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ اور جو کوئی کسی آدمی کو مارڈالے وہ ضرورجان سے مارا جائے۔ اور جو کوئی کسی چوپائے کو مارڈالے وہ اُس کا مُعاوضہ جان کے بدلے جان دے۔ اور اگر کوئی شخص اپنے ہمسایہ کو عیب دار بنادے تو جیسا اُس نے کیا وَیسا ہی اُس سے کیا جائے۔ یعنی عُضو توڑنے کے بدلے عُضو توڑنا ہو اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ جیسا عَیب اُس نے دُوسرے آدمی میں پیدا کردیا ہے وَیسا ہی اُس میں بھی کردیا جائے۔ الغرض جو کوئی کِسی چَوپائے کو مارڈالے وہ اُسکا مُعاوضہ دے پر اِنسان کا قاتِل جان سے مارا جائے۔ تُم ایک ہی طرح کا قانُون دیسی اور پردیسی دونوں کے لئے رکھنا کیونکہ مَیں خُداوند تُمہارا خُدا ہُوں۔‘‘
(احبار، باب 24، آیات16تا22 )
اس تعلیم کے نتیجہ میں مطلوبہ نتائج تو حاصل ہوگئے لیکن چند صدیوں کے اندر ہی اہل ِ یہود خود بھی مظالم ڈھانے میں اتنے بڑھ گئے کہ ضروری تھا کہ ان کے اپنے مظالم روکنے کے لئے انتہائی نرمی کی تعلیم دی جائے۔ جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ پھیلائی گئی۔
’’تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کُرتالینا چاہے تو چوغہ بھی اُسے لے لینے دے۔ اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُسکے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے مانگے اُسے دے اور جو تجھ سے قرض چاہے اُس سے مُنہہ نہ موڑ۔
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر بیٹے ٹھہروکیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لئے کیا اجر ہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیرقوموں کے لوگ بھی ایسا نہیںکرتے؟ پس چاہئے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔‘‘
(متّی ، باب 5، آیات38تا 48 )
اس تعلیم کا نتیجہ بھی حسبِ توقع نکلا اور عیسائیت کے پیروکار ، انتہائی نرم مزاج ہوگئے ۔وہ اتنے پر امن اور نرم مزاج ہوگئے کہ ان کی نرم مزاجی سے فائدہ اٹھاکر ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئے گئے ، جس کے نتیجہ میں ان کو تین سو سال غاروں میں چھپ چھپ کر رہنا پڑا۔
اسلام کی کاملیت کا دعویٰ اس طرح ملتا ہے کہ اسلام میں یہ تعلیم دی گئی کہ اگر تم پر ظلم ہو تو تم کو اختیار ہے کہ اس کا بدلہ لو۔ اور اگر تم چاہو تو نرمی سے کام لے کر معاف بھی کرسکتے ہو۔ یعنی اگر اصلاح کے لئے بدلہ لینا ضروری ہو تو ضرور بدلا لینا چاہئیے اور اگر معافی سے اصلاح سے ہوسکے معاف کردینا سب سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر مقتولوں کے بارہ میں قصاص فرض کردیا گیا ہے۔ آزاد کا بدلہ آزاد کے برابر، غلام کا بدلہ غلام کے برابر اور عورت کا بدلہ عورت کے برابر(لیاجائے)۔ اور وہ جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا جائے تو پھر معروف طریق کی پیروی اور احسان کے ساتھ اس کو ادائیگی ہونی چاہئے۔ یہ تمہارے ربّ کی طرف سے رعایت اور رحمت ہے۔ پس جو بھی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے درد ناک عذاب (مقدر) ہے۔‘‘
(البقرۃ ، آیت179)
یہ ایک ایسا عظیم الشان قانون ہے جو تاقیامت ،ہر قسم کے حالات میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام کو کا کامل مذہب قرار دیا گیا ہے۔
یہی وہ اصول ہیں جن کی وجہ سے سابقہ شریعتوں اور سابقہ کتب کی آیات کو (جو اپنے وقت میں سب سے بہتر تھیں) کو منسوخ کردیا گیایا بھلادیا گیا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
جو آیت بھی ہم منسوخ کردیں یا اُسے بھُلا دیں، اُس سے بہتر یا اُس جیسی ضرور لے آتے ہیں۔ کیا تُونہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے؟
(البقرہ ، آیت107)
خواتین کے حقوق
مغربی
ممالک کے دانشوروں کو دنیا کی سب سے کمزور اور مظلوم ’’چیز‘‘ مسلمان عورت نظر آتی
ہے۔انہی کے پرا پگنڈے کی وجہ سے عام شہریوں کو بھی مسلمانوں پریہ اعتراض کرنا فرض
ہوتا ہے کہ مسلمانوں عورتوں کے کوئی حقوق نہیں ہے۔
یہاں پریہ
یاددہانی ضروری ہے کہ اس مضمون کی اصل غائیت کو مدِنظر رکھا جائے او ر پہلے عورت
کی حیثیت کا تعین ،بائبل اور قرآن کی روشنی میں کیا جائے اور پھر معاشرتی حوالوں
سے۔ سب سے پہلے ، عورتوں کے بارہ میں چند مثالیں بائبل سے لیتے ہیں۔
لڑکے اور لڑکی میں تفریق کی مثال ملاحظہ ہو
بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی عورت حامِلہ ہو اور اُسکے لڑکا ہو تو وہ سات دِن ناپاک رہے گی جیسے حَیض کے ایّام میں رہتی ہے۔
(احبار، باب 12، آیت 2)
‘‘اور اگر اُسکے لڑکی ہوتو وہ دہ ہفتے ناپاک رہے گی جیسے حَیض کے ایّام میں رہتی ہے۔’’
( احبار، باب 12، آیت 5)
قرآن کریم میں کہیں بھی لڑکیوں کی وجہ سے ناپاکی بڑھ جانے کی تعلیم نہیں دی گئی ہے ۔اسی طرح بائبل میں صاف طور پر لکھا ہے کہ عورت مرد کی محکوم ہے۔’’پھر اُس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے دردِ حمل کو بڑھاؤنگا۔ تُو درد کے ساتھ بچّے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔
(پیدائش، باب 3، آیت16 )
اس کے برعکس قرآن کریم میں مردوعورت کو برابر قرار دیا گیاہے۔
اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلادیا۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں (کے تقاضوں) کا بھی خیال رکھو۔ یقینا اللہ تم پر نگران ہے۔
(النساء ، آیت 2)
…اور اُن (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہی حق ہے جتنا (مردوں کا)اُن پر ہے۔ حالانکہ مردوں کو ان پر ایک قسم کی فوقیت بھی ہے۔ اور اللہ کامل غلبہ والا(اور)حکمت والا ہے۔
(البقرہ ، آیت 229)
پس اُن کے ربّ نے اُن کی دعا قبول کرلی (اور کہا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہرگز ضائع نہیں کروں گاخواہ وہ مَرد ہو یا عورت…
(ال عمران، آیت 196)
ایک غلط تاثر یہ بھی عام ہے کہ اسلام میں عورتوں کو ملازمت کی اجازت نہیں ، حالانکہ عورتوں کو ملازمت اور دوسرے امور سرانجام دینے کی پوری آزادی ہے ۔ اور ان کو مکمل برابری حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اور اللہ نے جو تم میں سے بعض کو بعض پر فضلیت بخشی ہے اس کی حرص نہ کیا کرو۔ مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو وہ کمائیں۔ اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جووہ کمائیں۔ اللہ سے اس کا فضل مانگو۔ یقینا اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھتا ہے۔
(النساء آیت 33)
مغرب میں عورت کی آزادی کی حیثیت کیا ہے؟
مغرب میں عورت کی نام نہاد آزادی کی چند وجوہات نہایت بھیانک ہیں۔ مغربی ممالک میں صرف چند عشرے قبل تک ایک ایسے گھرانے کو آئیڈیل سمجھا جاتا تھا جس میں مرد کمائی کرتا تھا اور عورت گھر سنبھالتی تھی۔ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں میں ایک تبدیلی مردوں میں عیاشی کے رجحان کا بڑھنا تھا۔ جس کے لئے ضروری تھا کہ آمدنی زیادہ ہو اور اخراجات کم۔ اس کا بہترین حل یہ نکالا گیا کہ عورتوں کو مردوں سے برابری دلانے کا جھانسا دے کر ان سے محنت و مشقت کے کام لئے جانے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ عورتیں اپنے مالی لحاظ سے آزاد ہوں گئیں اور اپنے فیصلے آزادنہ کرنے لگیں۔ نیز مرد اور عورتیں، باہمی ذمہ داریوں سے بھی بری الذمہ ہوگئے۔عورتوں اور مردوں کا رہن سہن اتنا تبدیل ہوگیا کہ کئی دفعہ یہ پہچان ہی نہیں ہوتی کہ یہ مرد ہے کہ عورت۔ عورتوں نے مردوں کے کپڑے پہننے شروع کردئے جبکہ مرد بھی ان سے پیچھے نہیں رہے۔ کپڑوں کے رنگوں سے لے کر میک اپ تک عورتوں کی نقالی کرتے ہیں۔ سر کے بال بڑھا کر چٹیا بنا لیتے ہیں اور اب تو کئی مردوں نے باقاعدہ اسکرٹ پہننا شروع کردیا ہے۔جو کہ سراسر عیسائت کی تعلیم کے خلاف ہے۔ جیسا کہ بائبل میں درج ہے۔
عورت مرد کا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورت کی پوشاک پہنے کیونکہ جو ایسے کام کرتا ہے وہ خداوندتیرے خدا کے نزدیک مکرُوہ ہے۔
(اِستِثنا، باب 22آیت5 )
عورتوں کے مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے اخلاقی مسائل بھی بڑھ گئے۔ جس کا نتیجہ عورتوں اور مردوں کے آزادنہ تعلقات ، ناجائز بچوں کی پیدائش ، ہم جنس پرستی اور ایڈز کی صورت میں نکلا۔ اور اس سارے عمل کو جدیدیت اور آزادیِ نِسواں کا نام دیا گیا۔بن بیاہی مائوں کے بچوں کی تعداد حد سے بڑھ چکی ہے۔ اور کئی دفعہ جوان بچوں کو کسی طبی ٹیسٹ کے دوران پتہ چلتا ہے کہ جس شخص کو وہ اور تمام دنیا اُن کا باپ سمجھتی رہی ہے وہ ان کا باپ ہی نہیں ہے۔ اور اس کے باوجود یہ سب عیسائت کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ بائبل میں درج ہے کہ :
کوئی حرام زادہ خُداوند کی جماعت میں داخِل نہ ہو۔ دسویں پُشت تک اُسکی نسل میں سے کوئی خُداوند کی جماعت میں آنے نہ پائے۔
(اِستِثنا، باب 23، آیت2)
اس نام نہاد ’’آزدیِ نِسواں‘‘ کا ایک اور تاریک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس عمل میں عورت کا زبردست استحصال کیا گیا۔ لمبا عرصہ تک اسے مردوں کے برابر کام کرنے کے باوجود ، قانوناً کم اجرت ملتی رہی۔ اور اب بھی عموماً عورتوں کو ایسی جگہ پر ملازمت دی جاتی ہے جہاں ان کی خوبصورتی، نرم مزاجی اور صبر جیسی قدرتی صلاحیتوں کو misuseکیا جاسکے۔ عملی طور پر عورت کو ’’شو پیس‘‘ بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
زیادہ تر
اداروں کے استقبالیہ پر خواتین ہوتی ہیں جو آنے والے مہمانوں اور گاہکوں پر
خوشگوار تاثر قائم کرنے کے لئے ملازم رکھی جاتی ہیں۔ تقریباً ہر جگہ پر باس کی
سیکرٹری ایک عورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ڈپارٹمنٹل سٹورز پر ، کیشئرز اور کسٹمرسروس کے
لئے خواتین کو رکھا جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر ، کسٹمرز کی ناگوار باتیں سننا پڑتی
ہیں، جو عورت فطری طور پر صابر اور نرم مزاج ہونے کی وجہ سے سن لیتی ہیں۔ اگر مرد
ان کی جگہ پر ہوں تو وہ ناراض کسٹمرز کی باتیں سن کر جلدی صبر کا دامن چھوڑ دیتے
ہیں۔
اسی
آزادی کی وجہ سے مغربی ممالک کے ہر شہر اور قصبے میں ایسے کلب ، ہزاروں ، لاکھوں
کی تعداد میں قائم ہیںجہاں ، لاتعداد مردوں کی موجودگی میں، برہنہ عورت، جانوروں
کی طرح ناچ کر مردوں کے دِل بہلاتی ہے۔ اگر اس معاشرے میں عورت آزاد اور برابر ہے
تو ہزاروں کی تعداد میں ایسے کلب کیوں نہیں ہیں جہاں عورتیں مردوں کا تماشا دیکھ
سکیں؟
کیا مغربی ممالک کے صدور ، وزراء اعظم ، وزراء ، سفارت کاروں، افواج کے جنرلوں، پائلٹس، ججوں، پالیسی بنوانے والوںاور حتمی فیصلہ کرنے والوں میں عورتوں کا تناسب 50فی صد ہے؟یہ فہرست بہت لمبی ہوسکتی ہے۔ اور سب کا جواب بالکل واضح ہے کہ عورتوں کا تناسب 50فی صد تو کُجا، شاید ایک فی صد بھی نہ ہو۔
ہوسکتا ہے کہ ان اقوام پر یہ تمام مصیبتیں اور بیماریاں تورات کے مندرجہ ذیل اصول یا پیش گوئی کی وجہ سے نازل ہوئی ہوں کہ
لعنت اُس پر جو اِس شریعت کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے اُن پر قائم نہ رہے اور سب لوگ کہیں آمین۔
(اِستِثنا، باب 27، آیت26)
مسلمان ممالک خصوصاً ایشیا میں مسلمان عورتوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہوتے ہیں ان کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
۔ قدیم علاقائی رسم و رواج
۔ دینی و دنیاوی علوم کی کمی
ہندوستان میں اسلام پھیلنے کے بعد ایسی کوئی شخصیت سامنے نہیں آ ئی جوکثیر تعداد میںاسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم اور تربیت کابھی خیال رکھ سکتی۔ مسلمان بزرگوں کی سخت محنت کے باوجود ، ان کے وسائل اس بات میں مانع رہے کہ وہ لوگوں کی تربیت انفرادی بنیادوں پر کرسکتے۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت اُن رسوم سے پیچھا نہ چھڑا سکی جو اسلام میں بدعت سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً ایک رواج کہ جب تک شوہر کھانا نہ کھالے ، بیوی کھانا نہیں کھاسکتی۔ اور اگر شوہر اپنی بیوی کو زود وکوب کرے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں بلکہ عورت کے عام سی بات ہے بلکہ اکثر فخر کی بات سمجھی جاتی تھی اور بدقسمتی سے کچھ کے لئے تو اب بھی فخر کی بات ہے۔
جنگ کے اصول
مغربی ممالک کو یہ زعم رہا ہے کہ اُن کے تیارکردہ قوانین ِجنگ، مذہبی قوانین سے بہتر اور انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ تاہم عموماً وہ خو اپنے ہی تیارکردہ قوانین کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان بھی دورانِ جنگ اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر عمل کرتے ہیں۔ اِن مسلمانوں کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے وہ مجبوراً بعض ناگوار عمل عمل سرانجام دیتے ہیں اور اِسے اُن کی مجبوری سمجھی جانی چاہئے۔ تاہم اس بات کو سنت ِ رسول اللہ ﷺ کی روشنی میں دیکھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے چچا کا کلیجہ، دل، اور دوسرے اعضاء کھانے والی ہندہ کو بھی معاف فرمادیا تھا۔ اور جنگی قیدیوں کے ساتھ بھی ہمیشہ شفقت کا سلوک روا رکھا۔
جنگ کے بارہ میں بائبل میں درج ہے کہ
’’جب تُو کِسی شہرسے جنگ کرنے کو اُسکے نزدِیک پُہنچے تو پہلے اُسے صُلح کا پَیغام دینا۔ اور اگر وہ تُجھ کو صُلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشِندے تیرے باجگُذار بن کر تیری خِدمت کریں۔ اور اگر وہ تُجھ سے صُلح کرے بلکہ تُجھ سے لڑنا چاہے تو تُو اُسکا مُحاصرہ کرنا۔ اور جب خُداوند تیرا خُدا اُسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا۔ لیکن عَورتوں اور بال بچّوں اور چَوپایوں اور اُس شہر کے سب مال اور لُوٹ کو اپنے لِئے رکھ لینااور تُو اپنے دُشمنوں کی اُس لُوٹ کو جو خُداوند تیرے خُدا نے تُجھ کو دی ہو کھانا۔ اُن سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تُجھ سے بہت دُور ہیں اور اِن قَوموں کے شہر نہیں ہیں۔ پر اِن قَوموں کے شہروں میں جِن کو خُداوند تیرا خُدا مِیراث کے طور پر تُجھ کو دیتا ہے کِسی ذی نفس کو جِیتا نہ بچا رکھنا۔ بلکہ تُو اِن کو یعنی حِتّی اور اموری اور کنعانی ار فرزّی اور حوّی اور یہبُوسی قَوموں کو جَیسا خُداوند تیرے خُدا نے تُجھ کو حُکم دِیا ہے بِالکُل نیست کردینا۔ تاکہ وہ تُم کو اپنے سے مکروُہ کام کرنے نہ سِکھائیںجو اُنہوں نے اپنے دیوتائوں کے لِئے کِئے ہیں اوریُوں تُم خُداوند اپنے خُدا کے خِلاف گُناہ کرنے لگو۔ جب تُو کِسی شہرکو فتح کرنے کے لِئے اُس سے جنگ کرے اور مُدّت تک اُس کا مُحاصرہ کِئے رہے تو اُس کے درختوں کو کُلہاڑی سے نہ کاٹ ڈالنا کیونکہ اُن کا پھل تیرے کھانے کے کام میں آئے گا سو تُو اُن کو مت کاٹنا کیونکہ کیا میدان کا درخت اِنسان ہے کہ تُو اُس کا مُحاصرہ کرے؟۔ سو فقط اُن ہی درختوں کو کاٹ کر اُڑادینا جو تیری دانِست میں کھانے کے مطلب کے نہ ہوں اور تُو اُس شہر کے مُقابل جو تُجھ سے جنگ کرتا ہو بُرجوں کو بنالینا جب تک وہ سر نہ ہوجائے۔‘‘
(اِستِثنا، باب 20آیات 10تا20 )
اب قرآن کی تعلیم ملاحظہ فرمائیں۔
اور اگر وہ صلح کے لئے جُھک جائیں تو تُو بھی اُس کے لئے جُھک جا اور اللہ پر توکل کر۔ یقینا وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔ اور اگر وہ ارادہ کریں کہ تجھے دھوکہ دیں تو یقینا اللہ تجھے کافی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنی نصرت کے ذریعہ اور مومنوں کے ذریعہ تیری مدد کی۔
(الانفال، آیات 62و 63)
اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور (دورانِ قتال) انہیں قتل کرو جہاں کہیں بھی تم انہیں پائو اورانہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا تھا۔ اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے۔ اور ان سے مسجدحرام کے پاس قتال نہ کرو یہاںتک کہ وہ تم سے وہا ں قتال کریں۔ پس اگر وہ تم سے قتال کریں توپھر تم اُن کو قتل کرو۔ کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے۔
(البقرۃ ، آیات191و192)
یہودیت ،
عیسائیت اور اسلام میں کئی بنیادی باتیں مشترکہ ہیں ۔ آج کل کے ترقی یافتہ دور
میں لوگوں کو ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا ہے تو یہ ضروری ہے کہ
اُن امور پر بات کی جائے جو ان مذاہب میں مشترکہ ہیں۔ تاکہ آپس میں انڈر اسٹیڈنگ
اور رواداری کا ماحول بنے۔ان میں بنیادی مقصد مشترکہ ہے۔ جبکہ اُن کے بارہ میں
تعلیم، اسلام میں نسبتاً متوازن ہے۔یہ مشترکہ تعلیم یقینا ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے
کیونکہ اس پر ایمان لانے کے لئے قرآن میں مسلمانوں کو ہدائیت دی گئی ہے۔
’’یقینا یہ
ضرور پہلے صحیفوں میں بھی ہے۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔‘‘
(الاعلی ، آیات 19و20)
عورتوں اور مردوں کے آزادانہ تعلقات
بائبل میں درج ہے کہ
اور اگر کاہن کی بیٹی فاحشہ بن کر اپنے آپ کو ناپاک کرے تو وہ اپنے باپ کو ناپاک ٹھہراتی ہے۔ وہ عورت آگ میں جلائی جائے۔
(احبار، باب 21، آیت9 )
پر اگر یہ بات سچ ہو کہ لڑکی میں کنوارے پن کے نِشان نہیں پائے گئے۔ تو وہ اُس لڑکی کو اُسکے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائیں اور اُسکے شہر کے لوگ اُسے سنگسار کریں کہ وہ مرجائے کیونکہ اُس نے اِسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر میں فاحِشہ پن کِیا۔ یُوں تُو اَیسی بُرائی کو دفع کرنا۔ اگر کوئی مرد کِسی شوہَر والی عورت سے زِنا کرتے پکڑا جائے تو وہ دونوں مارڈالے جائیں یعنی وہ مرد بھی جِس نے اُس عَورت سے صُحبت کی اور وہ عَورت بھی۔ یُوں تُو اِسرائیل میں اَیسی بُرائی کو دفع کرنا۔اگر کوئی کنواری لڑکی کِسی شخص سے منسوب ہوگئی ہو اور کوئی دُوسرا آدمی اُسے شہر میں پاکر اُس سے صُحبت کرے۔ تو تم اُن دونوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر نِکال لانا اور اُن کو تُم سنگسار کردینا کہ وہ مرجائیں۔ لڑکی کو اس لئے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لئے کہ اس نے اپنے ہم سایہ کی بیوی کو بے حُرمت کیا۔ یوں تُوایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا۔
(اِستِثنا، باب 22آیات20تا24 )
اسی طرح قرآن کریم میں ہے۔
اور زنا کے قریب نہ جاؤ۔ یقینا یہ بے حیائی ہے اور بہت بُرا رستہ ہے۔
(بنی ٓ اسرآء یل، آیت نمبر 33)
اور تمھاری عورتوں میں سے وہ جو بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں ان پر اپنے میں سے چار گواہ بنالو۔ پس اگر وہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں روک رکھو یہاں تک کہ ان کو موت آجائے یا ان کے لئے اللہ کوئی (اور) رستہ نکال دے۔
(النّسآء ، آیت نمبر 16)
ہم جنس پرستی کے بارہ میں تعلیم
بائبل میں ہم جنس پرستی کو بہت بڑا گناہ بیان کیا گیا جس کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔
تو مرد کے ساتھ صحبت نہ کرنا جیسے عورت سے کرتا ہے۔ یہ نہایت مکروہ کام ہے۔
(احبار، باب 18، آیت 22 )
اگر کوئی مرد سے صحبت کرے جیسے عورت سے کرتے ہیں تو اُن دونوں نے نہایت مکرُوہ کام کِیا ہے۔ سو وہ دونوں جان سے مارے جائیں۔ اُن کا خُون اُن ہی کی گردن پر ہوگا۔
(احبار ، باب 20، آیت13 )
قرآن کریم میں اس بارہ میں فرمایا گیا ہے کہ
اور تم میں سے وہ دو مرد جو اس (بے حیائی ) کے مرتکب ہوئے ہوں انہیں (بدنی) سزادو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان سے اِعراض کرو۔ یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) باربار رحم کرنے والاہے۔
(النّسآء آیت نمبر 17)
سود کی حرمت
بائبل اور قرآن دونوں میں سود کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ بائبل میں درج ہے۔
اور اگر تیرا کوئی بھائی مُفلِس ہوجائے اور وہ تیرے سامنے تنگ دست ہو تو تُو اُسے سنبھالنا۔ وہ پردیسی اور مُسافِر کی طرح تیرے ساتھ رہے۔ تُو اُس سے سُود یا نفع مت لینا بلکہ اپنے خُدا کا خَوف رکھنا تاکہ تیرا بھائی تیرے ساتھ زِندگی بسر کرسکے۔ تُو اپنا روپیہ اُسے سُود پر مت دینا اور اپنا کھانا بھی اُسے نفع کے خیال سے نہ دینا۔
(احبار، باب 25، آیات 35تا 37 )
جبکہ قرآن میں آتا ہے۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو سود میں سے باقی رہ گیا ہے، اگر تم (فی الواقعہ) مومن ہو۔اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔ اور اگر تم توبہ کرو تو تمھارے اصل زر تمہارے ہی رہیں گے۔ نہ تم ظلم کروگے، نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
(سورۃ البقرۃ آیات 279،280)
بد قسمتی
سے مسلمان ممالک میں رہنے والے مسلمان مُنہہ سے اسلامی احکامات کو ہی اول و آخر
قابل عمل شریعت قرار دیتے ہیں اور اس پر پورا ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر
ہر اس برائی میں مبتلا ہیں جو مغربی ممالک میں پائی جاتی ہیں۔ بلکہ مغرب کی تقلید
میں ان سے بھی بڑھ گئے ہیں۔ نیزہر اچھے کام کو چھوڑ چکے ہیں، خواہ وہ قرآن میں
درج ہو یا مغربی قوموں اپنا چکی ہوں۔
اس کے برعکس
مغربی اقوام ، خصوصاً عیسائی قوم کی اکثریت یہ اقرار کرتی ہے کہ توراۃ اور بائبل
میں درج تعلیم صرف خیالی باتیں اور کہانیاں ہیں جن پر ایمان لانا اس لئے ضروری ہے
کہ انسان کو نفسیاتی طور پر کسی نہ کسی چیز پر روحانی ایمان لانا ضروری ہے۔ اور اس
تعلیم پر ایمان لانے کا یہ مطلب نہیں کہ اس تعلیم پر عمل بھی کیا جائے۔ بلکہ انسان
عمل کے لئے آزاد ہے ۔ نیز انسان کے مذہبی ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اتوار کے دن
چرچ میں حاضری دے دی جائے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مغربی اقوام کم از کم منافق نہیں ہیں۔ وہ جس پر روحانی طور پر ایمان رکھتی ہیںاس کا اظہار بھی کرتی ہیں اور جس چیز پر عمل کرنا چاہئیں اس پر اپنی پسند کی مہر لگا کر اسے کرلیتے ہیں۔ جبکہ مسلمان قوم ، شدید ترین منافقت کا شکار ہوچکی ہے ۔ جس کا عمل اس کے ایمان سے بالکل الٹ ہے۔
جب بھی کوئی ریسرچ سنٹر ، یونیورسٹی، کالج یا اسکول تعمیر کیا جاتا ہے تو ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ علوم کے نئے اسرارورموز دریافت کئے جائیں۔ لوگ مختلف آراء اورتحقیقات پیش کریں اور نت نئے مضامین لکھیں تاکہ دوسرے لوگ ان کاوشوں سے فائدہ اٹھا کر ترقی کرسکیں۔ اگر آپ کسی فزکس کے ریسرچ سنٹر میں جائیں تو آپ کو ہر ایک شخص فزکس کے مختلف پہلوں پر غور کرتا دکھائی دے گا۔ لیکن ہر شخص کو مکمل آزادی ہوگی کہ وہ کسی دوسرے کے نقطہ نگاہ سے اتفاق کرے یا اختلاف۔ 1947میں آزادیِ پاکستان کا واحد مقصد اسلام کو صحیح معنوں میں تمدنی اور معاشرتی زندگی پر لاگو کرنا تھا ۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ہر شخص کو اپنے علم اور عقیدہ کے بھرپور اظہار کے لئے مناسب پلیٹ فارم ملتا۔ ہمارے میڈیامیں اور اسکولوں اورکالجوں اور یونیورسٹیوں میں مذہبی مکالمے ہوتے۔ ہمیں یہ شعور اور تربیت ملتی کہ ہر شخص کی رائے کا احترام کرو اور اُسے حقارت کی نگاہ سے مت دیکھوتاہم عمل اُس پر کرو جو تمھاری اپنی رائے اور عقیدہ ہے۔ اگرچہ آج ہمارے میڈیا اور اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مذہب کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے لیکن افسوس صدافسوس، کہ مناسب پلیٹ فارم سے نہیں بلکہ ایسے طریقہ سے جو ہر جگہ بدنامی کا باعث ہے۔
اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ہم ہر اُس شخص کو قابل گردن زنی سمجھتے ہیں جو ہماری رائے سے اختلاف رکھتا ہو۔ ایک گردن کے جواب میں دو گردنیں کٹتی ہیں اور دو کے جواب میں تین۔اور یہ سلسلہ رکتا ہوا بھی نظر نہیں آرہا۔ ابھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اب بھی اگرمذہب اور سیاست چند خاندانوں سے نکل کر عام لوگوں تک پہنچ جائے(جو ان کا اصلی مقام ہے) تو دینی و دُنیوی لحاظ سے مسلمان پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھیں جائیں گے۔ انشاء اللہ۔