چمکیلا پتھر

(خواتین کا عالمی دن  8 مارچ 2019 کو منایا جارہا ہے۔ اس موقع کی مناسب سے   چند آزاد نظمیں پیشِ خدمت ہیں)

صدیاں گزریں

میں اکیلا تھا

کوئی یار نہ بیلی

اور پھر

اک دن میری پسلی سے

میرے دِل کا ایک حصہ

میری سوچوں سمیت باہر نکل گیا

اور وہ یِمْظِیِ تھی

میرا دِل بھی اس کے ساتھ گیا

میری سوچیں بھی اُس کے ساتھ گئیں

میں نے اس کے لئے اک جھیل کنارے

برف سے اٹے

درختوں کے جھنڈ میں

ٹوٹے درختوں کی شاخوں سے

اک جھونپڑی بنائی

اور سارا دن پرندے اور مچھلیاں پکڑتا

اور وہ وپتھروں سے آگ جلا کر اُن کو پکاتی

وہ میرے جسم کا حصہ تھی

میں اس کو جب بھی کوئی بات سناتا

وہ کہتی

اووں ہوں

تو نے کیوں بولا؟ یہ تو میں نے کہنا تھا!

……….

میں جہاں بھی جاتا واپس اس کے  ہی پاس آتا

کہ وہ میرے جسم کا حصہ تھی

کہ وہ میری روح کا حصہ تھی

میں جہاں بھی جاتا واپس اس کے  ہی پاس آتا

اک دن  میں  نےمٹی میں

ایک چمکیلا پتھر دیکھا

یہ سوچ کرکہ

وہ ان کو دیکھ کر خوش ہوگی

میں اُس کو نکالنے لگا

اس کو نکالنا بڑا مشکل تھا

لیکن میں جتا رہا

نجانے کب سورج ڈوبا

لیکن میں جتا رہا

نجانے کب سورج نکلا

لیکن میں جتا رہا

اور  اس کو نکال لیا

اور پھر میں وہ پتھر  لیکر جھونپڑی میں آیا

لیکن

جھونپڑی خالی تھی

میں نے اس کو سارے جنگل میں تلاش کیا

وہ نہ ملی

پچھلی رات

میرے انتظار سے تھک کر

وہ مجھے ڈھونڈے نکلی تھی

اور خود گم ہوگئی تھی

میں نے اس کو جنگل میں ڈھونڈا

میں نے اس کو جھیل میں ڈھونڈا

میں نے اس کو برف کے میدانوں میں ڈھونڈا

میں نے اس کو پہاڑوں کی چوٹیوں پر  ڈھونڈا

میں نے اس کوبادلوں میں ڈھونڈا

میں نے اس کو پانیوں میں ڈھونڈا

صدیاں بیت گئیں

اور میں اس کو ڈھونڈتا رہا

پھر صدیوں بعد آج   

فون پہ اک آواز آئی

اووں ہوں

ہاں یہ وہی تھی

ہاں یہ وہ تھی

وہ  وہیں کہیں تھی

میں نے دیوانوں کی طرح

اس کو پکارا

اور وہ  بھی بھاگی آئی

وہ بے تابی سے مجھ سے لپٹ پڑی

مجھے گلے لگایا

میں  دھیرے سے بولا

میں نے تجھ  کوبڑھا  تھا ڈھونڈا

 کہاں گئی تھی

کیوں گئی تھی

میرا خیال نہ آیا

میں نے تجھ کو کتنا ڈھونڈاتھا

اور وہ بولی

تم نے یہ کیوں بولا؟ یہ تو میں نے کہنا تھا!

میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر

چمکیلا پتھراس کے ہاتھ پہ رکھا

اس نے پتھر دیکھا اور ہنس پڑی

ہنستے ہنستے اس کے ہوگئے گال گلابی

آنکھیں ہوگئیں شرابی

میں نے بولا

اب نہ جانے دوں گا

تیرے پاس رہوں گا

وہ بولی
اووں ہوں

یہ کیوں بولا؟ یہ تو میں نے کہنا تھا!

اور آنکھیں موند کہ سو گئی

چمکیلا پتھرہاتھ میں لے کر سوگئی

میں نے سوچا

اب نہ جاوں گا میں کہیں

 نہ میں اس کو   جانے  دوں گاکہیں

پٹ سے اس نے آنکھیں کھولیں

اور جھٹ سے بولی

اووں ہوں

تم نے یہ کیوں سوچا؟ یہ تو میں نے سوچا تھا!

ہے نا    ۔۔۔!!!!

(فروری 2019)