کلامِ امام الزماں علیہ السلام

             کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا۔ اور چھ6 کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھوبیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اور   دُشنام دہی کی کتابیں نبی کریم ﷺ کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کرڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کرلیتے تو اللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور توہین سے جو ہمارے رسول کریم ﷺ کی، کی گئی، دُکھا۔ پس کیا ابھی اس آخری مصیبت کا وہ وقت نہیں آیا جو اسلام کے لئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا جو قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا۔ سو بھائیو! تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اور بیرونی اور اندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے۔ اگر تم ان تمام فتنوں کو ایک پلہ میزان میں رکھو اور دوسرے پلہ کے لئے تمام حدیثوں اور سارے قرآن کریم میں تلاش کرو تو ان کے برابر کیا ان کا ہزارم حصہ بھی وہ فتنے قرآن اور حدیث کی رو سے ثابت نہیں ہوں گے پس وہ کونسا فساد کا زمانہ اور کس بڑے دجّال کا وقت ہے جو اس زمانہ کے بعد آئے گا اور فتنہ اندازی کی رُو سے اس سے بدتر ہوگا۔ کیا تم ثابت کرسکتے ہو کہ ان فتنوں سے بڑھ کر، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ میں ایسے اور فتنوں کا پتہ ملتا ہے جن کا اب نام و نشان نہیں۔ یقیناً یاد رکھو کہ اگر تم ان فتنوں کی نظیر تلاش کرنے کیلئے کوشش کرو یہاں تک کہ اسی کوشش میں مربھی جاؤ تب بھی قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوگا کہ کبھی کسی زمانہ میں ان موجودہ فتنوں سے بڑکر کوئی اور فتنے بھی آنے والے ہیں۔

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5، صفحہ 51 -52)