کشمیر پر قانوناً کس کا حق ہے؟

پاکستان میں 5 فروری کو یومِ کشمیر منایا جارہا ہےاور اس دن ہر محبِ وطن پاکستانی اس بات کا عہد کرے گا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور بالآخر بھارت کو کشمیر پاکستان کے حوالہ کرنا ہی پڑے گا۔

            لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قانوناً کشمیر پر پاکستان کا حق ہے؟ یا کشمیر کیسے پاکستان کا حصہ بن سکتا ہے؟

            کشمیر  کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے تو تقسیم ہند کا فارمولا سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تقسیم ہند کے لئے یہ طے ہوا تھا کہ بنیادی اصول یہ ہوگا کہ ہندو اکثریت والے علاقے ہندوستان میں شامل ہوں گے اور مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے ۔ تاہم اس کا حتمی فیصلہ ہر صوبہ یا ریاست خود کرے گی اور اس کے لئے رہنما اصول مندرجہ ذیل ہوں گے۔

*

   جن صوبوں میں قانون ساز اسمبلیاں ہیں وہ اسمبلیاں فیصلہ کریں گی کہ وہ صوبہ کس ملک میں شامل ہونا چاہتا ہے۔

*

   جن ریاستوں میں اسمبلیاں نہیں اور وہاں کا سربراہ مہاراجہ /راجہ/مہارانی/رانی/نواب  وغیرہ ہیں  ، ان کا فیصلہ اس ریاست کا سربراہ کرے گا۔

یہ بنیادی فارمولا تھا جس کی بنیاد پر تقسمِ ہند سرانجام پائی جانی تھی۔ یہاں پر باقی سب صوبوں اور ریاستوں کو چھوڑ کر صرف کشمیر اور حیدرآباد دکن کی بات کرتے ہیں تاکہ اس معاملہ کو آسانی سے سمجھا جاسکے۔

کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی تھی لیکن راجہ ہری سنگھ غیرمسلم تھا جبکہ ریاست  حیدرآباد دکن میں اکثریت ہندؤں کی تھی مگر وہاں کا حکمران میر عثمان علی خاں مسلمان تھا۔  کشمیر کے راجہ نے کشمیر کو ایک آزاد مملکت کے طور پر  برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور اور ایسا ہی فیصلہ حیدرآباد کے نواب نے کیا۔

حیدرآباد کے نواب نے اپنی فوج کو مضبوط کیا، اپنی کرنسی کا اجراء کیا اور پورا حکومتی ڈھانچہ قائم کردیا۔ اس کے برعکس پاکستانی قبائلیوں نے 4 اکتوبر 1947 کو حملہ کرکے ریاستی فوج کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کشمیر کے نصف حصہ پر قبضہ کرلیا اور 24 اکتوبر 1947 کو آزاد جموں و کشمیر حکومت بنانے کا اعلان بھی کردیا گیا۔  اس اقدام کی وجہ سے 26اکتوبر 1947 کو  کشمیری راجہ نے اعلان کیا کہ وہ پاکستانی حملہ کی وجہ سے، بطور آزاد ریاست رہنے کے فیصلہ کو تبدیل کرتے ہوئے بھارت میں ضم ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس فیصلہ کی توثیق ہوتے ہی 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی بری اور فضائی فوج نے پاکستانی حملہ آوروں پر جوابی حملہ کرتے ہوئے موجودہ لائن آف کنٹرول تک واپس دھکیل دیا۔

اس وقت یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ تک پہنچ چکا تھا اور اقوامِ متحدہ نے دونوں ممالک کو حکم دیا کہ جہاں جہاں ہیں وہیں پر رہیں اور مزید پیش قدمی نہ کی جائے۔ اس طرح لائن آف کنٹرول وجود میں آئی۔

بعد ازاں معاہدہ تاشقد میں طے پاکستان اور انڈیا کے مابین طے پایا کہ یہ مسئلہ، اقوام متحدہ  کے تجویز کردہ فارمولے یعنی  کشمیروں کو حقِ رائے دہی دینے کی بجائے باہمی گفت و شنید سے طے کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ اقوام متحدہ یا کوئی ملک ہمارے مسئلہ میں دخل اندازی نہیں کرسکتا اور بات چیت جب بھی ہوگی دو طرفہ ہی ہوگی۔

 کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے اب ایک ہی امید اور راستہ باقی ہے کہ اس کو حیدرآباد دکن کے ساتھ منسلک کردیا جائے جس پر ایک بھیانک قتلِ عام کے بعد 18 ستمبر 1948 کو بھارتی افواج نے قبضہ کرلیا تھا۔ پاکستانی حکومت اگر کشمیر کی آزادی کے لئے سنجیدہ ہے تو اُسے حیدرآباد کے عوض کشمیر کی ملکیت کا دعویٰ کرنے پڑے گا۔

تاہم کشمیر کو آزاد ملک کی حیثیت سے، بھارت سے آزادی دلوانے کا حل بھی ممکن ہے۔ اس کے لئے پوری دُنیا کو بھارت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ کشمیروں کو حقِ خود ارادیت دے۔ لیکن مستقبل قریب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔