چوہدری محمد یوسف صاحب اور محترمہ رقیہ بی بی صاحبہ

تحریر: محمد سلطان ظفر

     چوہدری محمد یوسف صاحب1893میں غوث گڑھ کے نزدیک، دریائے بیاس کے کنارے  ایک گاؤں  سیکھےوال  میں  پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین وہابی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور زمیندار تھے۔ والدخیرمحمد جٹ صاحب اپنی پتی (برادری) میں نمبردار تھے۔  چونکہ چوہدری محمد یوسف صاحب اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے لہذا آپ نے برادری میں اپنی حیثیت مضبوط کرنے کی خاطر ایک عزیز کو اپنا بھائی بنا لیااور اپنی جائیداد میں سے آدھی جائیداد بھی اس کے نام منتقل کردی۔

                 حضرت عبداللہ سنوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ملازمت اور تبلیغ حق کے لئے ایک لمبا عرصہ غوث گڑھ میں مقیم رہے۔ انہی ایام میں چوہدری محمد یوسف صاحب ،جو گاؤں سکھیےوال کے نمبردار بھی تھے، کو ان کی بیٹھک میں جانے کا موقع ملتا رہا ۔ ان ملاقاتوں کے نتیجہ میں 1915ء میں تقریباً بائیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطاء فرمائی۔

                غوث گڑھ میں حضرت عبداللہ سنوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رہائش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق تھی۔ اور انہی کی دعائوں کے طفیل اس گاؤں کو حقیقی اسلام نے اپنی رحمت اور فضل کی چادر میں لپیٹ لیا۔ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ سنوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریرات میں سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔

                ’’… آخر میں نے یہ معاملہ حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ ناقل) کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور نے فرمایا ۔ کہ ہمارے نزدیک آپ کا غوث گڑھ میں رہنا مفید ہے۔ اس پر میں نے سب کو قطعی جواب دے دیا۔ اور ناظم صاحب کو بھی کہہ دیا۔کہ میں واپس ہی جاؤں گا۔ آخر انہوں نے افسوس کے ساتھ لکھا کہ میں نے تو تمہیں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ایسا چاہا تھا۔ اگر ایسا نہیں چاہتا۔ تو میں اجازت دیتا ہوں۔ آخر میں واپس اپنے حلقہ غوث گڑھ میں آگیا۔…مجھے غوث گڑھ میں واپس آنے سے بہت فائدے پہنچے۔ چنانچہ تمام گاؤں احمدی ہوگیا۔‘‘

 (مکتوبات احمدیہ جلدپنجم حصہ پنجم صفحہ 175-174، بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 4اکتوبر2003)

                غوث گڑھ کے باسیوں نے لدھیانہ جاکر بیعت کی تھی ۔ مقام بیعت کے ایک طرف عاشقان مسیح موعود علیہ السلام کا مجمع تھا اور دوسری طرف مخالفین کا، جو تمام وقت نومبائعین پر سنگ باری کرتے رہے۔

                قبول احمدیت کے وقت چوہدری محمد یوسف صاحب کی شادی رقیہ بی بی صاحبہ ،جو بذات خود کٹر وہابی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، سے ہوچکی تھی۔رقیہ بی بی صاحبہ کا گاؤں دریا کے کٹاؤکی وجہ سے دریابُرد ہوگیا تھا لہذا حکومت نے تمام رہائشیوں کو تحصیل سمندری کے ایک گاؤں اوڈاں والی میں متبادل زمین الاٹ کردی تھی۔ چوہدری محمدیوسف صاحب کے سسر صاحب ، نہ صرف امام مسجد تھے بلکہ ایک وسیع حلقہ میں بطور پیر مانے جاتے تھے اور عوام میں ایک خاص اثر رکھتے تھے۔ ان کے لئے اپنے داماد کا احمدی ہوجاناقطعی طور پر ناقابل قبول تھا۔ پہلے تو انھوں نے سمجھانے کی کوشش کہ وہ احمدیت ترک کردیں لیکن جب تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو انھوں نے بمعہ خاندان نہ صرف ہمیشہ کے لئے ترک تعلق کرلیا بلکہ اپنی بیٹی یعنی رقیہ بی بی صاحبہ کو بھی اپنے گھرلے گئے۔ چوہدری محمدیوسف صاحب کے لئے یہ وقت کافی مشکل تھا۔ باوجود اس کے کہ اچھے بھلے زمیندار تھے ، آپ کو بعض دفعہ کوئی کھانا بھی پکا کر نہ دیتااور اپنے پرائے کنی کترا جاتے۔ تاہم، اللہ تعالی کے فضل سے جلد ہی آپ کے ددھیال میں کئی عزیزوں کو احمدیت قبول کرنے کا موقع ملا، جس سے آپ کی مشکلات کچھ کم ہوگئیں۔

                دوسری طرف آپ کی اہلیہ محترمہ رقیہ بی بی صاحبہ ایک مشکل ترین دور سے گزر رہیں تھیں۔ مذہبی گھرانے سے تعلق کی بناء پر جہاں انھیں والدین کے حقوق کا پوری طرح سے ادراک تھا وہیں اپنے شوہر کے حقوق سے بھی پوری طرح آگاہ تھیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر دل میں یہ بے چینی اور جلن تھی کہ سچائی کیا ہے؟ اس کا حل آپ نے وہی نکالا جو مومنین کا وطیرہ ہے، یعنی اپنے پیارے خد اکی طرف رجوع فرمایا اور اس سے گڑگڑاتے ہوئے دعا ئیں کیں کہ اے خدا! جو سچ ہے وہ آشکار کر۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی سنت کے مطابق آپ پر حقیقت کو روشن کردیا اور ایک رویاء میں آپ نے دیکھا کہ حضرت رسول کریم ﷺ ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمارہے ہیں کہ یہ وقت کے امام ہیں، ان کی بیعت کرلو۔ اس پرشوکت اور پرنور رویاء کے بعد آپ نے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر 1917میں 23سال کی عمر میں احمدیت قبول کرلی۔

                اس بات کا صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے کہ رقیہ بی بی صاحبہ کے کٹر مذہبی خاندان نے آپ کے اس فیصلہ پر کیا حشر بپا کیا ہوگا۔ تاہم آپ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اپنے فیصلہ پر ثابت قدم رہیں اور اپنے والدین ، تین بھائیوں اور بہن کو چھوڑ کر اپنے شوہر چوہدری محمد یوسف صاحب کے پاس آگئیں۔ آپ کے اس اقدام پر آپ کے والدین اور اہل خاندان نے آپ سے تاحیات بائیکاٹ کا اعلان کردیا اور اس پر قائم بھی رہے۔

                محترمہ رقیہ بی بی صاحبہ نے مزید 52سال زندگی گزاری لیکن اس نصف صدی سے زائد عرصہ میں ، آپ کے والدین نے آپ سے ایک بار بھی ملاقات نہ کی۔ البتہ آپ کی بہن کبھی کبھار ملنے کی آتی تھیں اور ہمیشہ اپنے کھانے پینے کے برتن ساتھ لاتیں اور اپنا کھانا خود ہی پکاتیں۔ آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے (میرے والدمحترم) ماسٹر محمد عیسیٰ ظفر صاحب (مرحوم) لڑکپن میں بعض دفعہ اپنے ننھال جاتے تھے تو ان کو الگ کھانا تیارکرواکر دیا جاتاتھا اور اگر والد صاحب ان کے باورچی خانہ میں جاکر کھانے کی کسی چیز کو ہاتھ لگادیتے  تو تمام کھانا جانوروں کو ڈال دیا جاتا۔ اسی دور میں ہمارے والد صاحب نے غوث گڑھ سے سات میل دور، موضع راہوں میں قیام کرکے تعلیم حاصل کی۔ہمارے والد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ وہ ننھال کے ساتھ تعلق قائم رکھیں تاکہ احمدیت کا پیغام اُن تک پہنچتا رہے۔ تاہم ننھال کی طرف سے شدید سردمہری اور مخالفت کی بناء پر یہ یک طرفہ تعلق بھی بالآخر ختم ہوگیا۔

                تقسیم ہند کے بعد ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر، غوث گڑھ کے اکثر دوسرے مکینوں کی طرح چوہدری محمد یوسف صاحب بھی احمد نگر نزد ربوہ میں رہائش پذیر ہوگئے۔ احمدنگر کی زمین اس وقت بالکل بنجر تھی اور پانی کا کوئی نشان تک بھی نہیں تھا۔ بعض لوگوں نے حضور کی اس بابت توجہ دلائی کہ ہم زمیندار لوگ ہیں اور یہاں تو پانی بھی نہیں ہے۔ لہذااگر مناسب سمجھیں تو ہمیں کسی دوسری جگہ جانے کا ارشاد فرمادیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :

‘‘پانی احمدنگر کی گلیوں میں پھرے گا۔’’

(الفضل انٹرنیشنل 12دسمبر 2003)

                کچھ عرصہ کے بعد ہی دریائے چناب نے اپنا رخ تھوڑا سا تبدیل کرلیا جس کی وجہ سے سیلاب کا پانی احمدنگر کے اطراف تو اطراف اس کی گلیوں میں بھی پھرنے لگا۔ یہ پانی نہ صرف کلرکو مٹادیتا بلکہ اپنی ساتھ لائی چکنی مٹی بھی زمینوں میں بکھیردیتا تھا۔ چند سالوں کے اندر ہی یہ علاقہ سربزوشاداب ہوگیااوراس زمین پر،جس نے کبھی کسی جھاڑی کا بھی سایہ نہیں دیکھا تھا، ہرقسم کی فصل کاشت ہونے لگی اور آج یہ زرخیز ترین علاقہ بن چکاہے۔ الحمدللہ ۔

                چوہدری محمد یوسف صاحب کو مسجد کے ساتھ خاص شغف تھا اور نظام خلافت اور جماعت کی محبت واطاعت سب پر مقدم۔جب آپ نے سنا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حقہ پینے سے منع فرمایا ہے تو گھر آتے ہی اپنا حقہ توڑدیا اور اس کے بعد پوری زندگی کبھی حقہ کو منہ نہ لگایا۔ اسی طرح  ایک دفعہ ایک احمدی دوست کے ساتھ زمین کی حد کا تنازعہ ہواتو احمدنگر جماعت کے اس وقت کے صدرمکرم و محترم ابولعطاء صاحب نے جس جگہ حدکی بذات خود نشاندہی فرمائی اس کو بخوشی قبول کرلیا۔کئی لوگوںنے آپ کو کہا کہ آپ کو آپ کا حق نہیں ملا مگر آپ نے ان کو جھٹلاکر مکرم ومحترم ابولعطاء صاحب کے فیصلہ کو مقدم رکھا۔

                آپ تحریک ِجدید کے دفتر اوّل کے مجاہد تھے اور آپ کا حوالہ نمبر 01307ہے۔ ( حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خواہش کے مطابق ہماری بھی خواہش ہے کہ ہم ان کا چندہ تحریک جدید تاقیامت ادا کرتے رہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین)

                آپ کو ایک دفعہ ٹانگ پر چوٹ لگ تھی جس کی وجہ سے آپ کوتاحیات تکلیف رہی۔آپ کی وفات 3فروری 1958کو 65سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ کی تدفین ربوہ کے قبرستان میں عمل لائی گئی۔

                محترمہ رقیہ بی بی صاحبہ نظام وصیت میں بھی شامل ہوئیں اورپانچویں حصہ کی وصیت کی۔ آپ کا وصیت نمبر 4161 تھا۔نیز آپ تحریک جدیددفتر دوم کی مجاہدہ بھی تھیں۔ آپ ایک دعا گو اور صوم صلوٰۃ کی پابند خاتون تھیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاء کیا کرتی تھیں کہ وہ آپ کو اپنی اولاد کے کم از کم دو دو بچے دیکھنا ضرور نصیب کرے۔ ہمارے والد صاحب کے تمام بہن بھائیوں کے ہاں تو اللہ کے فضل وکرم سے دو سے زائد بچے تھے لیکن ہمارے والد ماسٹر محمد عیسیٰ ظفر صاحب اور والدہ صاحبہ حلیمہ بی بی صاحبہ کے ہاں ، ان کی شادی کے پانچ سال بعد ہمارے بڑے بھائی مکرم محمد احمد ظفر صاحب (حال کارکن دفتر امورعامہ ، صدرانجمن احمدیہ ربوہ)پیدا ہوئے۔ اور پھر مزید تین سال کے انتظار کے بعد ہمارے دوسرے بھائی مکرم محمد منور ظفر صاحب (سابق کارکن صدرانجمن احمدیہ ربوہ، حال مسی ساگا، کینیڈا) اکتوبر 1969میں پیدا ہوئے تو ان پیدائش کے صرف ڈیڑھ ماہ بعد 2رمضان المبارک بمطابق 12نومبر 1969کو 75سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو قبولیت بخش کر آپ کو اپنی تمام اولاد کے کم از کم دو دو بچوں کی پیدائش آپ کی زندگی میں دکھادی۔

                 آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں ادا کی گئی اور بعدازاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپ کی وفات پر آپ کے میکہ سے صرف آپ کے ایک بھائی اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لائے۔ جبکہ بقیہ خاندان نے آپ کا آخری دیدار بھی نہ کیا۔

                 ایک وقت تھا کہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے چوہدری محمد یوسف صاحب نے اپنی آدھی جائیداد دے کر ایک شخص کو اپنا بھائی بنالیا۔ اور رقیہ بی بی صاحبہ نے اسلام احمدیت کے لئے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا ۔لیکن خدا نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا اور آج ان کی نسل آسٹریلیا سے لیکر کینیڈا تک پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ اور حتی المقدور اسلام احمدیت کی خدمت کی توفیق پارہی ہے۔نیز کئی سعید روحوں کو احمدیت کی سچائی سے روشناس کرچکی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت عبداللہ سنوری رضی اللہ تعالیٰ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ 

‘‘ان کے ذریعہ غوث گڑھ میں جن لوگوں نے احمدیت قبول کی، مجھے یقین ہے کہ ان کی نسلیں پوری دنیا میں پھیل چکی ہوں گی۔ ‘’’

(الفضل انٹرنیشنل 26دسمبر 2003)

  اللہ تعالیٰ نے چوہدری محمد یوسف صاحب اور محترمہ رقیہ بی بی صاحبہ کو4بیٹوں 2بیٹیوں سے نوازا جو اب اس دنیا فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ان کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ محترم عبدالطیف صاحب

2۔ محترمہ صغریٰ بی بی صاحبہ

3۔ محترمہ شریف بی بی صاحبہ

4۔ محترم محمد صدیق صاحب

5۔ محترم عبدالقدیر صاحب

6۔محترم ماسٹر محمد عیسیٰ ظفر صاحب              

                اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام بزرگوں کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطاء فرمائے اور انھوں نے جو قربانیاں کیں ان کو قبول فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں پر جو فضل اور رحمتیں نازل کررہا ہے وہ ہمیشہ بڑھتی جائیں ۔اللہ کرے کہ ہم اور ہماری نسلیں، ہمیشہ خلافت احمدیہ کی حقیقی غلام اور عاشق صادق رہیں۔آمین