محمد احمد ظفر ۔ احمدنگر ربوہ
چنداسنگھ والا ضلع قصور میں ایک ہی احمدی گھرانہ ہے۔ اس خاندان کے سربراہ مکرم محمد حنیف صاحب ہیں اور اس خاندان کو 1998ء میں بیعت کرکے احمدیت میں شمولیت کی سعادت ملی۔
ان کی احمدیت قبول کرنے کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ مکرم محمد حنیف صاحب کے ایک بیٹے مکرم سعید احمد صاحب کو گاؤں کے ایک اور لڑکے ہمراہ بسلسلہ روزگار کراچی جانا پڑا۔ کراچی میں ایک احمدی بزرگ مکرم شیخ قدرت اللہ صاحب کے پاس ملازم ہوئےجہاں احمدیت سے تعارف ہوا اور جلد ہی احمدیت قبول کرلی۔ بعد میں باہمی تعلق اتنے بڑھے کہ محترم شیخ قدرت اللہ صاحب نے اپنی پوتی کا رشتہ مکرم سعید احمد صاحب سے طے کردیا۔ شادی کے بعد یہ جرمنی منتقل ہوگئے اور تاحال جرمنی میں ہیں۔ بعد میں دیگر اہلِ خانہ نے بھی بیعت کرلی۔ ان کے گاؤں یا اردگرد کے علاقہ میں دوردور تک کوئی احمدی آباد نہیں۔
مکرم محمد حنیف صاحب کی ایک 15سالہ بچی نازیہ حنیف جو دسویں جماعت کی طالبہ تھی اور گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی تھی، چند دن بیمار رہنے کے بعد 8 مارچ 2006 کوبقضائے الٰہی وفات پاگئی اور نزدیکی قبرستان سچیرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
تدفین کے بعد چند شرپسند عناصر نے لوگوں کو بھڑکایا کہ ہمارا قبرستان ناپاک ہوگیا ہے۔ گاؤں کے مولوی نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا کہ قبرستان کے دیگر مرحومین نے خواب میں میرے پاس آکر شکایت کی ہے لہٰذا مرحومہ کی میت کو قبرستان سے نکالا جائے۔ مرحومہ کے خاندان کو جوان بچی کی وفات کا صدمہ تو بھول گیا اور یہ فکر ستانے لگی کہ کہیں قبر کی بے حرمتی نہ ہو۔ گاؤں میں کشیدگی کا ماحول طاری ہوگیا۔
16 مارچ 2006 کو رات کے وقت بھاری تعداد میں پولیس نفری گاؤں پہنچی اور مکرم محمد حنیف صاحب اور اہلِ خانہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور ان کا موبائل فونز چھین لیا تاکہ کہیں رابطہ نہ کرسکیں۔ نیزان کو حکم دیا کہ وہ فوراً اپنی بیٹی کی قبرکشائی کرکے نعش نکال کرکہیں اور لے جائیں۔ انکار پر پولیس مکرم محمد حنیف صاحب کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ بالآخر پولیس مکرم محمد حنیف صاحب اور ان کے دس سالہ بیٹے کو قبرستان لے گئی۔ گاؤں کے تقریبا 200 افراد بھی قبرستان پہنچ گئے۔
پولیس نے دونوں باپ بیٹے کو جبراً حکمادیا کہ قبر کھود کر نعش نکالی جائے۔ مکرم محمد حنیف صاحب اور ان کا 10 سالہ بیٹا قبرکشائی کرتے رہے اور لوگ تماشہ دیکھتے رہے اورقہقہے لگاتے رہے، ایک بھی آواز ایسی نہ اٹھی جس سے ندامت یا شرمندگی کا اظہار کیا ہو۔ اس سے بڑی قیامت کیا ہوگی کہ ایک جوان بچی کی نعش، وفات کے کئی روز بعد، باب اور بیٹے کے ہاتھوں تماشبینوں کے سامنے نکلوائی جائے۔
ایک پولیس اہلکار سے آخر نہ رہا گیا اور اس نے اونچی آواز سے تمام حاضرین کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ لوگوں کو جو اعتراض تھا وہ دور ہوگیا ہے اب تو آپ کو ٹھنڈ پڑگئی ہے۔
نعش کی حالت بالکل ویسی ہی تازہ تھی جیسے تدفین کے دن تھی اور ایک خاص قسم کی خوشبو تھی جس نے ماحول کو گرمادیا تھا۔ پولیس کی نگرانی میں نعش کو قصور شہرلایا گیا اور تدفین عمل میں آئی۔
اتنی ظالمانہ کارروائی کے بعد گاؤں والوں نے اس خاندان کا عرصہ تک بائیکاٹ جاری رکھا۔
بی بی سی نے بھی اپنی نشریات میں اس واقعہ کوشامل کیا۔ ان کے نمائندہ نے جب مرحومہ کی چھوٹی ہمیشرہ سے پوچھا کہ ’’آپ کا اس بارہ میں کیا ردِعمل ہے؟‘‘ تو بچی نے جواباً کہا:
’’اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ کوئی طاقت ہمیں ہمارے عقیدہ سے نہیں ہٹاسکتی۔‘‘۔۔۔۔ اور مزید یہ کہا ’’جب خدا بندے کی سُنتا ہے تو اِن لوگوں سے فریاد کرنے کا کیا فائدہ؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے اِس خاندان کو ان آزمائشوں کے باوجود استقامت بخشی ۔ احباب جماعت نے ان کو مشورہ بھی دیا کہ وہ وہاں سے ہجرت کرکے ربوہ یا کسی دوسرے شہر چلیں جائیں مگر انہوں نے انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ جتنا ظلم چاہئے کرلیں وہ حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گےاوران کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ خاندان کے دیگر افراد کو ہمیشہ صراطِ مستقیم پر قائم رکھے اور دین و دُنیا کی حسنات کا وارث بنائے۔