میاں انس کی کرسی

عرفان احمد خان ابن مسعود احمد دھلوی ۔ جرمنی

18؍ دسمبر کی صبح ربوہ میں اپنے آبائی گھر میں ناشتہ سے فارغ ہوکر اخبار کا مطالعہ ابھی شروع ہی کیا تھا کہ فون پر کسی نے صاحبزادہ مرزاانس احمد صاحب کی وفات کی افسوسناک اطلاع دی۔ گھر میں یکدم سناٹا چھاگیااور گفتگوکا رُخ میاں صاحب کی جانب پھر گیا۔ اہلِ ربوہ کو گزشتہ کئی روز سے اس خبر کے حوالہ سے دھڑکا لگا ہواتھا۔ میاں انس فضل عمر ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر تھےاور اہلِ ربوہ ان کو معجزانہ شفا ملنےکے لئے خدا کے حضور سربسجود تھے۔

بحثیت فرد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کا احترام دلوں میں تھا ہی لیکن بطور واقفِ زندگی سلسلہ کے لئے ان کی طویل خدمات لوگوں کے دلوں میں گھر کرگئی تھیں۔ اہلِ ربوہ تو میاں صاحب سے خوب آشناتھے البتہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں آپ کے اوصاف اور خدمات کا تذکرہ کرکے دنیا کے مختلف ممالک میں آباد احمدیوں کو بھی حضرت مرزاانس احمد صاحب مرحوم کی شخصیت ، خوبیوں اور کام سے متعارف کروادیا۔

میں نے ربوہ میں آنکھ کھولی اور لڑکپن سے میاں صاحب کو دیکھنا شروع کیا۔ مجھے کبھی ان کے ساتھ دفتر یا کسی موقع پر ساتھ کام کرنے کا موقع تو نہ ملا لیکن 18؍دسمبر کو ان کے آخری دیدار کے وقت ایک پوری تاریخ میرے ذہن کے پردوں پر دستک دیتی رہی۔ میاں صاحب کو بہت بچپن میں دیکھا لیکن بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ کالج میں داخل ہوئے تو میاں صاحب جو مضمون پڑھاتے تھے مجھے اس سے ربط نہ تھا۔ البتہ میاں صاحب تین بار بطور پرائیوٹ سیکرٹری جرمنی تشریف لائے تو ڈیوٹی کی ادائیگی کے دوران ان سے رابطہ رہا۔ جب تک عزیزم نفیس احمد عتیق وکالت اشاعت سے منسلک تھے ان کے پاس سلام دعا کے لئے حاضر ہوتا تو میاں انس احمد صاحب سے بھی شرف ملاقات کی سعادت حاصل ہوجاتی۔ وہ ہر بار بزرگوں کا کوئی نہ کوئی نیا واقعہ اس طرح بیان کرتے کہ یہ ملاقات روحانی سرور پر ختم ہوتی۔ لیکن میرے اور میاں صاحب کے درمیان لڑکپن میں ایک ایسا ناقابلِ فراموش تعلق قائم ہواجس سے وہ وفات تک بے خبر رہے۔ اس تعلق کے دل پر ثبت ہوجانے والے نقوش میں میاں صاحب کے جنازے اور تدفین کے وقت بھی محسوس کرتا رہا۔

میری زندگی کا آغاز صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے کوارٹرنمبر 14میں ہوا۔ انجمن کے تمام کوارٹرز ایک جیسے تھے۔ جن میں رات کو صحن کو روشن کرنے کے لئے برآمدے کی اونچائی پر ایک بلب لگا ہواتھا۔ والد صاحب صحافی ہونے کے ناطے گرمیوں کی رات اس بلب کی روشنی میں رات دیر تک کام کرتے جس سے ہمسایوں کوشکایت پیدا ہوئی۔ ٹیبل لیمپ ربوہ والوں کے لئے ابھی ایجاد نہیں ہوا تھاچنانچہ ہمیں کوارٹرنمبر 17میں منتقل کردیا گیا۔ ہمارا چھوڑا ہوامکان حضرت صوفی غلام محمد صاحب کو الاٹ ہوا۔ ہم لوگ مختار احمد ہاشمی کی والدہ اور بہن استانی زاہدہ کی ہمسائیگی میں چلے گئے۔ دو کمرے ، برآمدہ،سٹوراور کچن کل کائنات تھی۔ دونوں کمروں میں چارپائیاں بیٹھنے اور لیٹنے کے لئے استعمال ہوتیں۔ بیرونی کمرہ میں الماری رکھنے کی گنجائش تو تھی لیکن استطاعت نہ تھی۔ چنانچہ والد صاحب کی چارپائی کے دونوں اطراف کتابیں دھری رہتیں اور بوقت ضرورت انہیں کتابوں کے درمیان جگہ بنا کر وہ نیند پوری کرلیتے۔ کمرے میں موجود دوسری چارپائی دن کے اوقات میں آنے جانے والے ملاقاتیوں کے لئے مخصوص تھی۔ جن پر میں نے وقت کے جیّد علماحضرت مولاناابوالعطاء صاحب، حضرت قاضی محمد نذیر صاحب اور حضرت ظہورالدین اکمل صاحب کو بھی بیٹھے دیکھا۔ ان چارپائیوں پر بیٹھ کر علمی گفتگوکرنے والوں کی فہرست کافی طویل ہے۔

ان دنوں واقفین سلسلہ کے علاوہ تین نوجوان زمانہ  طالب علمی میں ہمارے ہاں آیا کرتے۔ ایک مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب، ڈاکٹر حمید احمد خان(برادر اصغر ڈاکٹرنصیر احمد خان) اور رشید جاوید(سٹیٹ بنک آف پاکستان )۔ اچانک ان طالب علموں میں ایک اور نوجوان کا اضافہ ہوا جس نے بکثرت آنا شروع کیا۔ اس نوجوان کے واپس چلے جانے کے بعدوالد صاحب کچھ دیر بے چین رہتے۔

یہ سلسلہ یونہی چلتا رہااور بالآخر ایک روز والد صاحب نے اپنی اس بےچینی کا اظہار گھر میں کچھ ان الفاظ میں کیا کہ ’’ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک فرد نے آنا جانا شروع کیا ہے۔لیکن ہمارے پاس ان کو عزت وتکریم کے ساتھ بٹھانے کے لئے کرسی تک نہیں۔ ہمیں ایک کرسی خرید لینی چاہیے۔ ‘‘

 چند دنوں میں والد صاحب نےاپنی اس خواہش کو کئی بار دُہرایا لیکن والدہ جن کے ہاتھ میں گھر کا بجٹ تھا کی طرف سے مسلسل خاموشی دیکھ کر والد صاحب نے اپنے دوست چوہدری عبدالعزیز ڈوگر کے سامنے حالِ دل بیان کردیا۔ چوہدری صاحب کو خدا نے مسائل کو حل کرنے کا ملکہ عطا کیا تھا۔ چنانچہ اُسی وقت کاریگر کو بلا لیا گیا۔ والد صاحب نے اپنے ذہن میں محفوظ آرام دہ کرسی کا تصور کاریگر کے سامنے بیان کیا۔ کاریگر نے اپنا حساب کتاب لگا کر چھ روپے لاگت کا تخمینہ چوہدری عبدالعزیز ڈوگر کے سامنے پیش کردیا۔ والد صاحب ہنسی خوشی تیز قدم اُٹھاتے گھر کی طرف لوٹے اور محض چھ روپے میں کرسی تیار ہوجانے کی خوشخبری یوں بیان کی کہ گویا ناممکن کو ممکن کردکھایا ہو۔ لیکن چھ روپے کا سن کردوسرے لمحہ  والدہ کے چہرے پر اُبھرنے والے پریشانی کےآثارمیری بچپن کی یادوں کے اَنمٹ نقوش میں شامل ہے۔ والدہ نے اپنی حساب کتاب کی کاپی میں کئی بار جمع تفریق کرکے اپنا فیصلہ سُنا دیا کہ کُرسی نہ بن پائے گی۔ والد صاحب ایک دو روز افسردہ رہے اور تیسرے روز پھر ڈوگر صاحب کے پاس جا پہنچے۔ چنانچہ ایک بار پھر دواخانہ خدمتِ خلق میں دربار لگااور ڈوگر صاحب کی معاملہ فہمی نے کاریگر کو کُرسی کی قیمت تین اقساط میں وصول کرنے پر تیار کرلیا۔ چنانچہ فی الفور پہلی قسط دو روپے ادا کرکے گویا آرڈرکنفرمیشن لیٹر جاری ہوگیا۔ یہ معرکہ سَرہونے پروالد صاحب اپنی جگہ خوش اور پورا گھر کُرسی کاانتظار کرنے لگا۔

دوہفتے کے انتظارکے بعد ایک شام کاریگر اپنی سائیکل پر کُرسی رکھ کر دینے آگیا۔ والد صاحب کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ باربارکُرسی پر نہال ہورہے تھے۔ خوشی سے دمکتے چہرے کے ساتھ انہوں نے کُرسی کے دونوں بازوؤں پر ہاتھ رکھااور بے اختیار ان کے مُنہ سے یہ الفاظ نکلے۔’’یہ میاں انس کی کرسی ہے‘‘میاں صاحب جب بھی آتے ان کو ان سے منسوب کرسی پر بیٹھا دیکھ کروالد صاحب نہال ہوجاتے۔ بعد میں اس کرسی پر جماعت کے بہت سے اَکابرین کو بیٹھنے کا موقع ملا۔ خاندان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میں سے محترم صاحبزادہ مرزارفیع احمد صاحب اورصاحبزادہ مرزاحنیف احمد صاحب کو بھی میں نے اس کُرسی پر بیٹھے عِلمی گفتگو کرتےدیکھا۔ لیکن یہ کُرسی ہمیشہ میاں انس کے نام سے منسوب رہی اور آج بھی گھر میں میاں انس والی کُرسی کہلاتی ہے۔

 18؍دسمبر 2018ءکو جس وقت مجھے میاں صاحب کے مرحوم ہوجانے کی اطلاع ملی تو میں انہیں سے منسوب کرسی پر بیٹھا اخبار کا مطالعہ کررہا تھا۔ ربوہ والے گھر کا فرنیچر کئی بار بدلا گیا لیکن میاں انس کی کُرسی کی اہمیت کبھی کم نہ ہوئی۔ ایک صحافی کے ورثے کی تقسیم میں چند کتابوں کے علاوہ یہ کُرسی بھی میرے حصہ میں آئی۔ میاں انس اگلے جہان کو رخصت ہوگئے لیکن ان سے منسوب اس کرسی نے ابھی جرمنی کا سفر اختیارکرنا ہے۔

18؍دسمبر کو میاں صاحب کو لحد میں اُتارتے وقت میرا ذہن ساٹھ سال پہلے کے اس واقعہ تصور میں کھویا ہوا تھاکہ میاں انس احمد کی بدولت میرے والد صاحب کے ذہن میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احترام کی خاطر بے چین کردینے والا سبق آموز خیال کس چیلنج بن کراُبھرا اور کس طور پورا ہوا۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احترام کی جو نصیحت اس کُرسی کے ساتھ نتھی ہے میری دعا ہے کہ ہماری اگلی نسلیں اس کوفراموش کرنے والی نہ ہوں۔ گھر میں موجودمیاں صاحب کی کُرسی ہمیں ان کے بلندی درجات کی یاددہانی کرواتی رہے گی۔ اور کرسی سے وابستہ کہانی احمدیت کی آئندہ نسلوں پر بزرگوارم عبدالقادر دہلوی کے ان اشعارکی اہمیت واضح کرتی رہے گی۔

؎ بیٹھے رہیں گے کوچۂ جاناں میں اے جنوں
ان تنگیوں میں وسعت داماں لئے ہوئے
آساں ہیں ہم پہ راہِ محبت کی سختیاں
تقریب دیدار یار کا ساماں لئے ہوئے