مطالعہِ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت

محمد سلطان ظفر

حضرت رسول کریم ﷺ نے ابن مریم کے نزول ثانی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بتائی کہ 

‘‘…وَ یُفِیضُ الْمَالَ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ…’’

ترجمہ:…وہ مال بھی لُٹائیں گے لیکن کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔…

(بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم، بحوالہ حدیقۃ ُالصَّالحین، صفحہ 899)

مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے مندرجہ بالا حدیث کا یہ مطلب نکالا کہ آنے والا مسیح دنیاوی مال و دولت اور سوناچاندی لوگوں میں تقسیم کرے گا اور اتنا کرے گا کہ لوگوں کو مزیدمال کی ہوس ختم ہوجائے گی اور وہ مزید دولت لینے سے انکار کردیں گے۔ اگر ایسی کسی صورتحال کو تصور کیا جائے تو معیشت کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی کہہ اُٹھے گا کہ اتنی زیادہ دولت ہونے کے بعد تو اس کی قدر اتنی کم ہوجائے گی کہ ہوسکتا ہے کہ ایک روٹی خریدنے کے لئے کئی پونڈ خالص سونا دینا پڑجائے۔ نیز عمومی انسانی فطرت یہی ہے کہ جیسے جیسے دولت کے انبار بڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے مزید مال کی طلب و حرص بڑھتی جاتی ہے۔ اور شاذ ہی کوئی مثال اس دنیا میں ملے کہ کسی شخص نے کہا ہو کہ اب میرے پاس اتنی زیادہ دولت اکٹھی ہوگئی ہے کہ اب میں مزید دولت، جو مجھے مفت مل رہی ہے، لینے سے انکار کرتا ہوں۔

یہ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے ہم احمدیوں کو یہ سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائی کہ مسیح کے خزانے سونے اور جواہر کی شکل میں نہ ڈھونڈیں بلکہ اس پیاری تعلیم میں تلاش کریں جو حدیث نبوی ﷺ اور قرآن کریم کی تشریح ہے۔ یہ وہ خزانے ہیں جن کو دنیاداروں نے لینے سے انکار کرکے، ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی 14سوسال قبل کی گئی پیش گوئی اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت کی سچائی کا کھلاثبوت مہیاکردیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس نے مجھے متوجہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقی کے میدان کارزار میں اتروں اور اسلام کی روحانی شجاعت اور باطنی قوت کا کرشمہ بھی دکھلائوں میں کب اس میدان کے قابل ہو سکتا تھا یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایت ہے ۔ کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزت ظاہر ہو۔…اور درحقیقت یہ خداتعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آکر اٹکا ہے، وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ  59،60،   روحانی خزائن CD Vol.2صفحہ145،146ملفوظات سیکشن)

’’اور خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں ان خزائن مدفونہ کو دنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جوان درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے اس سے ان کو پاک صاف کروں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 60،   روحانی خزائن CD Vol.2صفحہ146ملفوظات سیکشن)

٭     تبلیغِ اسلام :

دعوت ِالی اللہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔نیز اللہ تعالیٰ کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں خود بھی یہ معلوم ہو کہ یہ پیغام کیا ہے۔لوگوں کو پیغام الہی پہنچانے کے چار مراحل ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ، عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچائی جائے۔ اس تبلیغ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جواب مہیاکرنا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔ جبکہ تیسرا مرحلہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہﷺ اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات دینا ہے۔اور آخری مرحلہ میں اسلام احمدیت قبول کرنے والی سعید روحوں کی مزیدتعلیم و تربیت کرنا ضروری ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ہمیں ان چاروں مراحل کو بخوبی سرانجام دینے کا بھرپور علم ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء ، قرآنِ کریم کے خزانے، حدیث نبوی ﷺ کی تشریحات، مذہبی و فقہی مسائل کا حل انہی کتب میں مل سکتا ہے۔ اور کوئی ایک بھی اعتراض یا حملہ ایسا نہیں جو اسلام کی پیاری تعلیمات پر کیا گیا ہو اور اُس کا جواب آپ ؑ نے پوری طاقت سے نہ دیا ہو۔ اوراس معاملے میں آپؑ نے کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں بخشی۔ عیسائیت، یہودیت، ہندوازم، آریہ سماج، سکھ ازم، اہلسنت، اہل تشیع اور اہلحدیث وغیرہ کی طرف سے حقیقی اسلام پر ہونے والے ہر ایک حملہ آپؑ نے اپنے تیزدھار قلم سے روک کر اسلام کو ایک بار پھر پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ کردیا۔اور یہ قلمی جہاد، روحانی خزائن کے نام سے ہمارے پاس موجود ہے۔

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضرتِ مسیح کا دور قلمی جہاد کا دور ہونا چاہئے تھا۔  تذکرہ (مجموعہ الہامات و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) میں صفحہ 408  پر اخبار ’’الحکم‘‘ مورخہ 17جون1901ء جلد 5، نمبر 22کے حوالہ سے  حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تحریر کیا گیا ہے کہ

 ’’اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سُلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقارِ علی فرمایا‘‘۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصانیف کا آغاز اس وقت کیا جب آپ کو اندازہ ہوا کہ صرف مضامین لکھ کر اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں آپ نے ایک مستقل تصنیف ’’براہین احمدیہ ‘‘ کا آغازفرمایا۔شروع میں اس عنوان سے  پچاس کتب شائع کرنے پروگرام تھامگر بوجوہ پانچ جلدیں شائع فرمائیں۔ اس کتاب کے پہلے دو حصے 1880ء میں شائع ہوئے جبکہ تیسرا، چوتھااور پانچواں حصہ بالترتیب 1882، 1884اور 1905میں شائع ہوئے۔ (بحوالہ حیات طیبہ صفحہ50،52) ان کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنِ کریم اور حضرت رسولِ کریم ﷺ کی صداقت کے ایسے شاندار دلائل دئیے کہ اپنے پرائے دنگ رہ گئے۔ اور جہاں مخالفین کے حواس باختہ ہوئے، وہیں عاشقان اسلام نے سکھ کا سانس لیا۔

اس شاندار آغاز کے بعد آپ کے قلم سے دلائل و براہین کا وہ سمندر بہہ نکلا جس کے سامنے سب مخالفین خش و خاک کی طرح بہہ گئے۔ عیسائی ، آریہ ، سکھ، اور عرب دان آپ کے مقابلہ میں آئے اور شکست و ریخت کا شکار ہوئے ۔ اور کیوں نہ ہوتے جبکہ آپ کی پشت پر خدائے ذوالجلال کا اپنا ہاتھ تھا۔

آپ نے اللہ تعالیٰ ، قرآنِ کریم اور رسول کریم ﷺ کی سچائی میں ایسے عظیم الشان دلائل دئیے جن کا توڑناممکن تھا۔ لہذا آپ نے متعدد مواقع پر ان دلائل کو جھٹلانے والے کے لئے اپنی جائیداد اور لاکھوں روپے کے انعامات کا اعلان فرمایا مگر آج تک کسی مذہب، فرقے یا قوم کا کوئی فرد، باوجود کوشش کے، ایسا نہیں کرسکا اور نہ تاقیامت کرسکے گا۔ انشاء اللہ۔

حضرت مسیح موعود کی تصانیف کی تعداد 80سے زائدہے جبکہ لاتعداد مضامین اور اشتہار اس کے علاوہ ہیں۔علاوہ ازیں بعض علماء ہند و عرب سے خط و کتابت بھی فرماتے رہے نیز آپ کے مناظرے بھی تحریری شکل میں موجود ہیں۔ ان تمام اصناف کو اگر پڑھا جائے تو ایک واضح نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ان کا مصنف غیرت دینی اور تائید الہی رکھنے والا ہے ۔ بے شمار خلقت صرف آپ کی کتابیں پڑھ کر حقیقی اسلام سے بہرہ مند ہوئی اور پیارے اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور اشتہارات اور مکتوبات ہماری تمام اصولی تشریحات اور ہمارے مخصوص نظریات کا ماخذ ہیں۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو احمدی ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں تم ایک گونہ تکبر پائوگے کیونکہ وہ میری طرف منسوب ہونے کے باوجود اپنے آپ کو میرے کلام سے جو خدا سے روشنی یافتہ ہے مستغنی سمجھتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کم از کم تین بار پڑھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور بغیر تین بار پڑھے ، کسی شخص کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ خود کو عالم سمجھے۔ یہ ایک تکبر ہوگا کہ آپؑ کی کتب تین بار پڑھے بغیر کوئی شخص خود کو عالم سمجھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں موجودہ زمانہ کی سہولتوں کا کوئی تصور تک بھی نہ تھا ۔آپ کی بے سروسامانی تو اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ کے پاس کوئی باقاعدہ لائبریری نہیں تھی۔ قادیان میں کاتب اور پریس کی سہولت بھی موجود نہ تھی۔ ابتدائی زمانے میں مضمون خود لکھ کر سفر کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے امرتسریابٹالہ جاکر مضمون کاتب تک پہنچاتے اور کاتب کی لکھی ہوئی کاپیوں کی خود ہی پروف ریڈنگ کرتے۔

قرآنی پیش گوئیوں اوررسول اللہﷺ کی بیان فرمودہ علامات کی صداقت ثابت کرنے والے امام موعود کی آمد پر تمام غیر مذاہب والوں بلکہ روایتی مسلمانوں نے بھی آپ کی مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کردیا۔ اس وجہ سے آپ کو انکے پھیلائے ہوئے غلط اعتراضات کے جواب دینے پڑے اور آپ کی بعض تصانیف میں مناظرہ کا رنگ آگیا تاہم آپ کا اصل میدان تو روحانی انقلاب برپا کرنا تھا اور اس مقصد کے لئے آپ کی تصانیف میں تفسیر قرآن اور عشق رسول ﷺ کا بے مثال رنگ پایا جاتا ہے۔ آپ کے علم کلام نے علمی میدان میںجماعت کو ایسا مقام دلادیا کہ خداتعالیٰ کے فضل سے دلیل و برہان میں جماعت ایک بلند مقام پر فائز ہوگئی۔

٭     تائیدِالہٰی:

تصنیفات کا یہ عظیم کام اگر دنیاوی مقصد کے لئے ہوتا توبلامبالغہ، بیسیوں لوگوں کی مسلسل محنت درکار ہوتی۔ چونکہ روحانی خزائن کا کام دنیاوی نہ تھا بلکہ یہ ایک خالصتاً للہی کام تھا لہذا اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پیارے مسیح کی بھرپور مدد فرمائی ۔ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائید الہٰی سے لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا نام وحی و الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں۔‘‘

(سرالخلافہ صفحہ 6 بحوالہ روزنامہ الفضل ،ربوہ، 25فروری2004)

بعض دفعہ کوئی مضمون تحریر کرتے ہوئے آپؑ کے قلم مبارک میں وہ روانی آتی کہ آپ ایک دن میں سینکڑوں صفحات تحریر کردیتے ۔ اور کئی دفعہ تو روحانی مضمون اس طرح آسمان سے اترتے کہ آپ خود حیران رہ جاتے۔ جب خطبہ الہامیہ آپ کی زبانِ مبارک سے جاری ہوا تو احباب نے اسے فوری طور پر ساتھ ساتھ تحریر کرلیا اور جب حضور علیہ السلام نے بعد ازاں اُسے پڑھا تو بے اختیار خدا کے حضور سربسجود ہوگئے۔

ان کتابوں کی اہمیت اور تیاری میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

’’اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائیدحق اور اشاعت اسلام کو منقسم کردیا۔ چنانچہ منجملہ ان شاخوں کے ایک شاخ تالیف و تصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اس عاجز کے سپرد کیا گیا ہے اور وہ معارف و دقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خداتعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہوسکتے ہیں اور انسانی تکلف سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم سے مشکلات حل کردیے گئے۔‘‘

(فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 11،12)

٭     تفسیر قرآن :

اللہ تعالیٰ نے حتمی شریعت ، ہمارے پیارے آقا و مولا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اتاری۔ گزرتے وقت کے ساتھ، مسلمان اس حسین تعلیم سے دور ہوتے گئے اور ایک ایساوقت بھی آگیا کہ لوگ قرآن کریم کو صرف قسمیں اٹھانے اور گھر کے ایک طاق میں رکھنے کے عادی ہوگئے۔پھر یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی عظیم کارنامہ تھا کہ آپؑ نے قرآن کریم کے پڑھنے اور سمجھنے کی اہمیت اجاگر کی۔ آپ ؑ نے قرآن کے گہرے مطالب اور پرمعارف نکتے بیان کئے جس کے نتیجہ میں بے شمار روحیں اس چشمہ سے سیر ہوئیں اور بے شمار قوموں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو پہچانا۔ آپ کی کتب کے ایک ایک لفظ کا منبع قرآنِ کریم ہے۔ حضرت خلفیۃ المسیح الثانی تحریرات حضرت مسیح موعود کی اہمیت کے متعلق فرماتے ہیں:

’’پھر اس زمانہ کے لئے علوم قرآنیہ کا ماخذ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود اور مہدی مسعود کی ذات ہے۔ جس نے ۔۔۔کے بلند و بالا درخت کے گرد سے جھوٹی روایات کی آکاس بیل کو کاٹ کرپھینکا اور خدا سے مدد پاکر اس جنتی درخت کو سینچا اور پھر سرسبز و شاداب ہونے کا موقعہ دیا(۔۔۔)ہم نے اس کی رونق کو دوبارہ دیکھا اور اس کے پھل کھائے اور اس کے سائے کے نیچے بیٹھے۔ مبارک وہ جو قرآنی باغ کا باغبان بنا۔ مبارک وہ جس نے اسے پھر سے زندہ کیا اور اس کی خوبیوںکو ظاہر کیا۔ مبارک وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے آیا اور خداتعالیٰ کی طرف چلاگیا اس کا نام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ج، بحوالہ روزنامہ الفضل 25فروری 2004)

قرآن سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیفات کو غورو فکر سے پڑھیں۔ اس کی اہمیت   حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے مندرجہ ذیل فرمان سے بھی واضح ہوتی ہے:

’’… ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم اور احادیث نبوی کو سمجھنے کے لئے جو ہمارے لئے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں کتب حضرت مسیح موعود کابھی مطالعہ کریں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کی اس طرف پوری توجہ نہیں ہے جو کہ فکر کا مقام ہے۔‘‘

(الفضل 29اکتوبر1977، بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 25فروری 2004)

اسی سلسلہ میں حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم میں غوطہ خوری کے بعد علوم و معرفت کے بے بہاموتیوں کو نکالا اور ہمارے سامنے پیش کیا۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ،  6مارچ 1999)

٭     حضورﷺ کا اعلیٰ مقام:

قرآنِ کریم کی پاکیزہ تعلیم کو سب سے احسن رنگ میں ہمارے پیارے رسولﷺ نے سمجھا اور اپنی زندگی کے ہر پہلو پر چسپاں کیا۔ رسول اللہﷺ کی زندگی ہر مسلمان کے لئے قرآن کریم کی روشن مثال ہے۔

کچھ ناعاقبت اندیشوں اور مخالفین نے رسول اللہﷺ کی سنت کو ، لوگوں کے سامنے غلط معنوں میں پیش کیا ہے۔ مثال کے طورپربعض مخالفین نے رسول اللہﷺ پر الزام لگایا کہ آپؐ نے نعوذ باللہ تلوار کے زور پر اسلام کو فتح دی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور عظیم کارنامہ ہے کہ آپؑ نے اپنے آقا ﷺ پر ایسے لگائے تمام الزامات کو دور فرمایا۔ اور رسول اللہ حضرت محمدﷺ کی پاکیزہ زندگی کے ہر پُرنور پہلو کو بھر پور رعنائیوں کے ساتھ پیش کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، رسول کریم ﷺ کے عاشق ِ صادق اورآپ کے تمام اعمال، سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق تھے۔ آپؑ کی تحریرات میں بھی سنت مبارک ﷺ اور احادیث مبارک کا تسلسل ملتا ہے۔ اس بارہ میں حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’جب حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریرات پر میں غور کرتا ہوں تو اس سے ملتی جلتی حدیثیں یاد آتی ہیں اور جب حدیثوں کو غور سے پڑھوں تو صاف سمجھ آجاتی ہے کہ یہ منبع تھا حضرت مسیح موعود کی حکمت کا۔ وہ حدیثیں پڑھیں تو قرآن ان کا منبع نظر آتا ہے۔ غرض یہ کہ سلسلہ وار بندوں سے بات شروع ہو کے خدا تک جاپہنچتی ہے۔‘‘

(روزمانہ الفضل ربوہ، 6مارچ 1999)

٭     حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ اور کاملیتِ ایمان:

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کو سمجھنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ آپ کی کتب پڑھی جائیں۔آپؑ کی کتب پڑھ کرہی ہمیں اس تعلیم کا حقیقی معنوں میں اندازہ ہوسکتا ہے جو آپؑ نے ہمیں دی ہے۔ اس کی اہمیت حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ مندرجہ الفاظ میں واضح کرتے ہیں:

’’اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم نے مرزا صاحب کو امام مانا، صادق سمجھا، بہت اچھا کیا لیکن کیا اس غرض و غایت کو سمجھا کہ امام کیوں آیاہے؟ وہ دنیا میں کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کی غرض یا اس کا مقصد میری تقریروں سے یا مولوی عبدالکریم کے خطبوں سے یا کسی اور کی مضمون نویسیوں سے معلوم نہیں ہوسکی ، اور نہ ہم اس غرض اور مقصد کو پورے طور پر بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہمارے بیان میں وہ زور اور اثر ہوسکتا ہے جو خود اس (۔) کے لانے والے کے بیان میں ہے۔…‘‘

(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 314، بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ، 25فروری2004)

اس افادیت کو حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے :

’’پس بغیر ان کتب کوباربار پڑھے اور قادیان میں کثرت سے آنے کے ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ سلسلہ کی کتب کو نہیں پڑھتے وہ یادرکھیں کہ محض سلسلہ میں داخل ہوجانا کوئی بات نہیں جب تک کہ سلسلہ سے کماحقہ واقفیت نہ پیدا ہو۔‘‘

(الفضل 19جون 1917، بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 25فروری 2004)

٭     اسلام کا دوسرے مذاہب کے ساتھ تقابلی جائزہ:

انگریز عیسائی پادریوں کا یہ خواب کہ بہت جلد پورا ہندوستان عیسایت قبول کرلے گا، شرمندہِ تعبیر نہ ہوسکا۔ اور صرف ایک شخصؑ اس طوفان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈٹ گیا تھا۔ہندو معاشرے میں رہتے ہوئے، حضور نے بڑی بہادری کے ساتھ ہندوں کے اسلام پر حملوں کو روکا۔ ایک اور بڑے مذہب سکھ ازم میں پائی جانے والی خامیوں کی طرف توجہ دلائی اور یہ ثابت کیا کہ حضرت بابا گرونانک مسلمان تھے۔اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند کتب کا ذکر ضروری ہے۔

آپ نے ’’ ازالہ اوہام ‘‘دو حصوں میں شائع کی جس میں آپ نے وفات ِ مسیح اور اپنے دعویٰ کے بارہ میں پُرشوکت دلائل دئیے اور حیات مسیح کے نقصانات کو تفصیل سے بیان فرمایا۔

19جون1897ء کو ملکہ معظمہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی کے موقع پر آپ علیہ السلام نے ایک رسالہ ’’تحفہ قیصریہ‘‘ تحریر فرمایا۔ جس میں موجودہ مذہب عیسوی کو غلط اور اسلام کا صحیح مذہب ہونا ثابت کیا گیا۔ نیز ملکہ معظمہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔

1895ء میں ’’ست بچن ‘‘ کی تصنیف ہوئی ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سفر ڈیرہ بابا نانک کی وجوہات اور گورو گرنتھ صاحب اور جنم ساکھیوں سے حضرت باوا نانک رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک کی وضاحت فرمائی ہے۔

1895ء  میں ہی کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ شائع ہوئی جس میں کثرت ازدواج، طلاق اور آریوں کے مسئلہ نیوگ کو کھول کھول کر بیان فرمایا۔

آپ کی تصانیف کا ذکر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ کے ذکر کے بغیر ناممکن ہے۔  26تا 28دسمبر 1896ء میں جلسہ مذاہب عالم منعقد ہواجس میں آپؑ نے پانچ سوالوں کے جواب میںاللہ تعالیٰ کی تائیدسے دلائل کے وہ انبار لگاے کہ آپ کا مضمون تمام مضمونوں سے بالا رہا۔ اس مضمون کو سنتے ہوئے سامعین پر ایک وجد طاری ہوگیا اور جلسہ کا ایک دن صرف اس مضمون کے لئے بڑھا دیا گیا۔یہی مضون ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔

٭     احمدیت کا دوسرے مسلمان فرقوں کے ساتھ تقابلی جائزہ:

مسلمانوں کو کونسا فرقہ ایسا تھا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات اقدس پر حملہ نہیںکیا؟ یہ آپؑ کاقلم ہی تھا جس نے ایک ایک فرقہ کے اعتراضات کا جواب کماحقہ دیا۔

محتلف لوگوں کے اعتراضات و سوالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ نے 1882ء میں ایک کتاب ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ جس کا دوسرا نام ’’دافع الوساوس‘‘ بھی ہے ، لکھی۔ یہ کتاب فروری 1883میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب بھی دلائل سے پرہے ۔ اس کتاب کی تصنیف کے دوران حضرت مسیح موعود کو دو مرتبہ رسول کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ ﷺ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر فرمائی۔

(ضمیمہ کمالات اسلام ایڈیشن اول صفحہ 4)

ایک اشتہار کے جواب میں مولوی محمدحسین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذ باللہ جاہل اور قراردیا تو آپؑ نے باری تعالیٰ کے حضور دعا کی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک رات میں آپ کو عربی زبان کے چالیس ہزارمادے سکھادئیے ۔ اور آپ نے عرب و عجم پر حجت قائم کرنے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہم خیال مولویوں کے کبر کو توڑنے کے لئے عربی زبان میں 24کے قریب کتب تحریر فرمائیں۔

(ماخذحیات طیبہ ،از حضرت شیخ عبدالقادرؒ، صفحہ 135)

٭     حق و راستی کی تعلیم :

اس دنیا میں بے شمار علوم ہیں اورہر مسلمان کے لئے فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ علوم کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے۔ علوم کو سیکھنے کے مرحلہ میں بے شمار مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب انسانی دماغ اپنی محدود صلاحیتوں کی وجہ سے، غلط نتیجہ نکال کر اپنے خدا تک سے انکاری ہوسکتا ہے اور بعض دفعہ ہوبھی جاتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتب ہمیں بھٹکنے اور الجھنے سے بچالیتی ہیں۔

حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 30جون 2004کو، جامعہ احمدیہ کینیڈا کے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’…آپ ابھی سے قرآن کریم پر غور اور تدبر کرنے کی عادت بنالیں۔ ایسے نکات نکالیں جو نئے ہوں۔ اسکول میں آپ نے سائنس پڑھی ہے اس کی روشنی میں دیکھیں کہ ہم نے دین حق کی تشریح کیسے کرنے ہے۔ مگر ایسا ہم نے حضرت مسیح موعود کے دیئے ہوئے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے۔ نصاب کے طور پر تو آپ کچھ کتابیں پڑھتے ہی ہیں۔ نصاب کی کتب کے علاوہ حضرت مسیح موعود کی دوسری کتب بھی پڑھنی چاہئیں ۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ مطالعہ ختم ہو جاتا ہے یہ تو ہمیشہ زندگی بھر جاری رہتا ہے۔‘‘

( روزنامہ الفضل ربوہ8جولائی 2004صفحہ 2)

٭     تربیت:

کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہمیت تربیتی پہلو سے بھی بہت زیادہ ہے۔ ان کتب کو پڑھ کر انسان محسوس کرتا ہے کہ وہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک معیت میں موجود ہے۔ اور یوں انسان کی اعمال بہتر سے بہتر ہوتے جاتے ہیں۔ اور انسانی کجیاں روز بروز دور ہوتی جاتی ہیں۔ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے تربیتی کلاس مجلس خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’اگر آپ یہاں سے یہ عہد کرکے جائیں گے کہ ہم روزانہ پانچ صفحات حضرت مسیح موعود کی کتب کے پڑھیں گے بلکہ میں پانچ کی شرط کو بھی چھوڑتا ہوں اگر آپ تین صفحات روزانہ پڑھنے کا بھی عہد کریں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تھوڑے عرصہ ہی میں آپ کے اند ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں آپ پر نازل ہوں گی ۔ ‘‘

( مشعل راہ جلد دوم صفحہ 45، بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ3جون 2004صفحہ 2)

اسی طرح حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’جماعت کی تربیت کے لئے آج کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے اقتباسات کے پڑھ کر سنانے سے بہتر اور کوئی طریق نہیں ہے اتنا گہرا اثر رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود کے الفاظ اس طرح دل کی گہرائی سے نکل کر دل کی گہرائی تک ڈوبتے ہیں اور ایک ایسے صاحب تجربہ کا کلام ہے جس کی بات میں ادنیٰ بھی جھوٹ یاریاء کی ملونی نہیں ہے یہ بات جو کہتا ہے وہ سچی کہتا ہے اس سے زیادہ دل پر اثر کرنے والی اور کیا بات ہوسکتی ہے۔‘‘

(الفضل 19اپریل 1998بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 25فروری 2004)

٭     علم ومعرفت میں اضافہ :

آج کے مشکل ترین دور میں جب مسلمان ہر طرف سے گھر چکے ہیں اور فرقہ پرستی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو مسلمانوں کو حقیقی اسلامی تعلیم سے آگاہ کرسکے ۔ سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے۔ بعض نام نہاد مسلمان علماء نے اپنی کتابوں میں اسلام کے پیارے اور دلکش چہرہ پر گرد ڈال کر اسے دھندلا دیا ہے۔اور انہی علماء کی تحریرات کی وجہ سے سلیمان رشدی جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاہم پر یہ بھی ایک عظیم احسان ہے کہ آپ نے اسلامی تعلیم کو صحیح رنگ میں پیش فرمایا۔ آپ نے جہاد، مرد کی چار شادیاں، حقوقِ نسواں، کاملیتِ مذہب، مکالمہ مخاطبہ، الہام اور دوسرے بے شمار امور کے بارہ میں اعلیٰ ترین تشریحات فرمائیں اور ان کو اپنی کتب میں محفوظ کرکے ہمارے لئے عظیم خزانہ مہیافرمادیا۔ آپؑ کے پیش کردہ نکات و معارف کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوںحضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں۔ اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔ براہین احمدیہ خاص فیضان الہٰی کے ماتحت مکمل کی گئی ہے۔ اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی بھی اس کو لے کر پڑھنے کے لئے بیٹھا ہوں۔ دس صفحے بھی نہیں پڑھ سکا۔ کیونکہ اس قدر نئی نئی باتیں اور معرفت کے نکتے کھلنے شروع ہوجاتے ہیں کہ دماغ انہیں میں مشغول ہوجاتا ہے۔ تو حضرت صاحب کی کتابیں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں۔ ان کا پڑھنا بھی ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کے ذریعہ ہے۔‘‘

(ملائکۃ اللہ انوارالعلوم جلد 5صفحہ 560بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ ، 25فروری 2004)

٭     علمِ تاریخ کی درستگی:

مخالفینِ اسلام نے ہمیشہ اسلامی تاریخ کوتروڑ مروڑ کر دینا کے سامنے پیش کیاہے۔ جس کے نتیجہ میں ایک بہت بڑی اکثریت یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ اسلام کے اشاعت میں تعلیم سے زیادہ تلوار کا ہاتھ رہا ہے۔ اور یہ تاثر آج کل مزید قوت پاتا جارہا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس محاذ پر بھی اپنے قلم سے دشمنوں کے دانت کَھٹّے کردیے ہیں۔ آپ نے نہ صرف ہمارے پیارے آقا ومولا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس پر ہونے والے ناپاک حملوں کو پسپا کیا بلکہ آپ  ؐ کا روشن چہرہ پوری دنیا کو دکھانے کی سعادت حاصل کی۔ یہی نہیں بلکہ دوسرے جلیل القدر انبیاء مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مقدس ذاتوں پر لگائے جانے الزامات کو بھی صاف کیا۔ آپ ؑ نے مستندمحقق کی حیثیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اور تدفین کشمیر میں ثابت کی۔ اس تحقیق کے لئے آپ نے بہت محنت کی اور صحابہ کو خصوصی طور پر کشمیر بھیج کر اپنے دلائل کے حق میں تمام ثبوت مہیاکئے۔نیزآپ نے سکھوں کے مشہور حضرت بابا گرونانک رحمہ اللہ کی نسبت ثابت کیا کہ وہ مسلمان تھے۔ اس دعویٰ کو سچاثابت کرنے کے لئے آپ نے لمبے سفر بھی کئے اور بہت سی رقم بھی خرچ کی۔

٭     وقت کا صحیح استعمال:

وقت کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود ہم میں سے ایک بڑی اکثریت اپنے قیمتی وقت سے کماحقہ فائدہ اٹھانے سے دور ہے۔ اپنے اس وقت کو جو ہم ضائع کردیتے ہیں، صحیح رنگ میں استعمال کرنے کابہترین طریقہ مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہے۔ اس سلسلہ میںحضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے تربیتی کلاس مجلس خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’ حضرت مسیح موعود کو خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تو وہ شیخ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا اور ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ حضرت مسیح موعود کا ہے اور آپ اسے ضائع کررہے ہیں اور اس طرح خدا تعالیٰ کی ناشکری کے مرتکب ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اپنے آپ کو محروم کررہے ہیں اور جو وقت آپ ضائع کررہے ہیں اس کا چوتھا حصہ بھی آپ حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ میں خرچ کریں تو آپ دس بیس صفحات روزانہ پڑھ سکتے ہیں۔ اگر آپ پانچ صفحات روزانہ بھی پڑھیں تو ایک ماہ میں آپ 150اور سال میں 1800صفحات پڑھ لیتے ہیں اور کہنے کو صرف پانچ صفحات روزانہ ہیں۔‘‘

( مشعل راہ جلد دوم صفحہ 45، بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ3جون 2004صفحہ 2)

٭     برائے طالبانِ حق :

 اگر یہ نیت ہو کہ قرآن اور حدیث و سنت ِ نبوی ﷺ کا علم حاصل کرنا ہے، تو اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

۔’’ہمارا مدعا یہ ہونا چاہئے کہ ہماری دینی تالیفات جو ، جواہرات تحقیق اور تدقیق سے پر اور حق کے طالبوں کو راہ راست پر کھینچنے والی ہیں جلدی سے اور نیز کثرت سے ایسے لوگوں کو پہنچ جائیں جو بری تعلیموں سے متاثر ہوکر مہلک بیماریوں میں گرفتار یا قریب قریب موت کے پہنچ گئے ہیں۔ اور ہر وقت یہ امر ہمارے بدنظر رہنا چاہئے کہ جس ملک کی موجودہ حالت ضلالت کے سم قاتل سے نہایت خطرہ میں پڑگئی ہو بلاتوقف ہماری کتابیں اس ملک میں پھیل جائیں اور ہر ایک متلاشی حق کے ہاتھ میں وہ کتابیں نظر آویں۔‘‘۔

(فتح اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 3صفحہ 27)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی اہمیت اورضرورت پرروشنی ڈالتے ہوئے حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے تربیتی کلاس مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے جو نصیحت فرمائی، وہ آج بھی ہمارے مشعل ِ راہ ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’پس آج آپ کو میری نصیحت یہی ہے اور یہ بڑی بنیادی اور اہم نصیحت ہے اور میں اسے باربار دہرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھنے کی عادت ڈالیں اس کے نتیجہ میں آپ شیطان کے بیسیوں حملوں سے محفوظ ہوجائیں گے اور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں آپ کی عزت ہوگیاور آپ کی زندگی کے کاموں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا اور جب وہ وقت آئے گا کہ دنیا پکارے گی ہمیں استاد چاہئیں۔ ہمیںسکھانے والے چاہئیں تو آپ میں سے ہر ایک اس قابل ہوگا کہ وہ استاد بن سکے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا کا استاد بننے کی توفیق دے کہ ہم آپ کو ان راہوں پر چلائیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل آپ کے شامل حال ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی آپ کو ملے۔‘‘(آمین)

( مشعل راہ جلد دوم صفحہ 45، بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ3جون 2004صفحہ 2)

            اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دُعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کُتب کم از کم تین بارپڑھنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی بھرپور توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔