جب میں گرفتار ہؤا

حسن محمد خاں

محترم حسن محمد خاں صاحب جماعت احمدیہ کے ایک جید بزرگ ، صحافی، ’’مقدس کفن‘‘ اور ’’بلالؓ ‘‘ جیسی کتابوں کے مصنف اور خلافتِ احمدیہ کے عاشقِ صادق تھے۔ آپ  نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت قریب رہ کرخدمتِ دین سرانجام دی۔ آپ نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک پیغام، قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچانے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہوا جب اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ قائدِ اعظم کے جائے قیام پر ان کے سیکرٹری کو حضورؓ کا پیغام دیا جو انہوں نے اندر جاکر قائدِ اعظم کی خدمت میں پیش کیا۔ خان صاحب نے بتایا کہ ان کی قائدِ اعظم سے براہ راست ملاقات تو نہیں ہوئی لیکن وہ ان کے کمرے کے سامنے کھڑے ان کی آواز سن رہے تھے۔امید ہے کہ ان کا یہ سفر تاریخ  میں کہیں نہ کہیں پوری جزئیات کے ساتھ محفوظ ہوگا۔

محترم خان صاحب سے میری پہلی ملاقات سن 2000ء میں ہوئی جب جماعت ٹورانٹو سنٹرل کے اجلاسِ عام میں ان کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا اور ان کو گھر سے لانے اور اجلاس کے بعد گھر چھوڑنے کی ذمہ داری خاکسار کے ذمہ لگی۔ بعد ازاں خاکسار ان کی جماعت مالٹن میں چلا آیا تو ان سے قربت اور محبت بڑھتی گئی اوران سے تاریخِ احمدیت کے بے شمار واقعات سنے۔ میری بیٹی کی تقریب آمین میں بھی وہی مہمان خصوصی تھے۔ ذیل کا واقعہ انہوں نےمذکورہ بالا اجلاسِ عام میں انتہائی دلچسپ انداز میں سنایا اور بعد ازاں خاکسار کے اصرار پر اسے تحریر بھی کیا۔ ان کی یہ تحریر پیشِ خدمت ہے۔

(مدیر بادِ شمال)

1953 جماعت احمدیہ پاکستان کے لئے بڑا پُرآشوب سال تھا۔ روز کوئی نہ کوئی فراورتشویش والی خبرآتی۔ فلاں شہرمیں کسی احمدی بساطی کی دُکان لوٹ لی گئی، بعد میں اُسے آگ کے شعلوں کے سپردکردیا گیا۔ پولیس دیکھتی رہتی اوراُس کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگتی۔ بے چارااحمدی بے بسی کے عالم میں اپنی روزی کے سامان کو جلتے ہوئے دیکھتا رہ جاتا۔ کبھی کپڑے کی دُکان کا یہی حشرہوتا۔ پھر چھوٹے دوکاندار جنہیں ہم پرچون فروش کہتے ہیں، کسی ظالم بے درد ہجوم کی ستم گری کا نشانہ بنتا اوراُس کی دکان کو جلاکر راکھ کردیا جاتا۔

احمدی قوم کے دن یوں ہی گذررہے تھے۔ حضرت امیرالمؤمنین خلیفتہ المسیح الثانی مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جماعت کا حوصلہ بلندرکھنے کے لئے متواتر اپنے درد بھرے اورحوصلہ بلندرکھنے والے پیغامات مخلص اورمحبت کرے والی جماعت کو بھجواتے۔ خطبہ جمعہ بھی ایسے ہی فقرات اورپیغامات سے پُرہوتا۔ اوریہ جماعت کے سب افرادکے حوصلے بلندرکھنے کے لئے تریاق کاکام دیتے۔ میرے پیارے امام کا ایک فقرہ آج بھی مجھے یاد ہے اورکانوں میں گونجتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا:

’’فکر نہ کرو!    میراخدامیری مدد کے لئے دوڑا چلاآرہاہے’’

 وقت نے کب کسی کا انتطارکیا ہے۔ مارچ کا مہینہ تھا۔ تحریک جدید اورصدرانجمن احمدیہ کے دفاتر ابھی پختہ نہیں بنے تھے اورکچے کمروں پرہی مشتمل تھے۔ میں وکالتِ تجارت سے تبدیل ہوکر لاہورے وکالتِ تبشیرربوہ آچکا تھا۔ ایک دن میں صبح سویرے اپنے دفتر کے لئے روانہ ہؤا۔ دفتر سے ابھی بیس پچیس گزکے فاصلہ پر ہی تھا کہ میں نے پولیس کا ایک سپاہی دیکھا جو تحریک جدید کے دفاتر سے دس بارہ گزدور ڈانگ لئے کھڑا تھا۔ میں جب اُس کے قریب سے گذرا تو وہ میری طرف دیکھ کر معنی خیزانداز میں مسکرایا۔ پھر میں نے دیکھا کہ تحریک جدیداورصدرانجمن احمدیہ کے گردقریباً سوسپاہیوں نے گھیراڈالا ہؤاتھا۔ اُن دنوں تحریک جدید کے دفتروں کا احاظہ چوکور تھا۔ جب میں اس میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک انسپکٹر پولیس چند سپاہیوں کے ساتھ ایک کمرہ کے سامنے کھڑا تھا۔ میں پُرسکون انداز میں اپنے دفتر چلا گیا۔ 

چندمنٹ بعد تلاشی شروع ہوگئی۔ دفتر کے ہرفرد کو حکم تھا کہ کسی قسم کی مزاحمت نہ کی جائے اورتلاشی میں پولیس کی ہرممکن مدد کی جائے۔ سب سے پہلے وکالتِ دیوان کی تلاشی ہوئی۔ اس کے بعد دوسری وکالتوں کی باری آئی۔ آخرمیں ہمارے دفتریعنی وکالتِ تبشیرکی باری آئی اورتلاشی شروع ہوگئی۔

 ایک سب انسپکٹراوراُس کے ساتھ ایک یادوکانسٹیبل تھے جو یہ مہم جوئی کررہے تھے، ہر کارکن کی میزپر جاتے۔ اُس کے کاغذات اوررکھی ہوئی فائلیں پڑھتے۔ کچھ نہ ملتا تو آگے بڑھ جاتے اوراگلی میز پر جاکر اپنا فرض اداکرنا شروع کردیتے۔ میری میز پر بھی آگئے۔ میں اُٹھ کر دوسرے کمرہ میں چلاگیاتاوہ جی بھر کر بلاجھجک پڑھ سکیں اورتلاشی لے سکیں۔ دفتر کی آخری میزہمارے despatcherکی تھی اورانسپکٹر صاحب نے اس کی بھی بڑے انہماک سے تلاشی لی۔

   ضمناً یہ بات بھی عرض کروں کہ اُن دنوں دفترتبشیرکی طرف سے دُنیا کے تمام احمدی مشنوں کو دوصفحات کا ایک خبرنامہ ہرماہ بھجوایا جاتا تھا جِسے ہم بلیٹن کہا کرتے تھے۔ میرے تبشیرمیں آنے سے قبل یہ اردومیں لکھا جاتا تھا۔ میرے آنے کے بعداُس وقت کے وکیل التبشیرجناب ملک عمرعلی صاحب رئیس ملتان نے ایک دن کچھ رنجیدہ الفاظ میں کہا کہ ہمارابلیٹن تواُن ممالک میں جاتا ہے جہاں اردوزبان بولی اورپڑھی نہیں جاتی۔ اس بلیٹن سے سوائے اُس ملک کے مبلغ کے اورکون فائدہ اُٹھاتا ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ پھرآپ کا اس بارہ میں کیا ارشاد ہے۔ فرمایا کہ یہ تو انگریزی میں ہونا چاہئے تاکہ ملک کے دیگر احمدی احباب اورخواتین بھی اس سے فائدہ اُٹھاسکیں۔ میں نے عرض کیا کہ اس کے لئے آپ دفتر کو حکم دیں کہ ایسا ہی کیا جائے۔ایک لمحہ سوچ کر بولے کہ اسے انگریزی میں کون لکھے گااورکون ترجمہ کرے گا۔ میں نے عرض کیا کہ اِس خدمت کو میں سرانجام دوں گا تو کچھ حیران سے ہوئے اور مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ کس کے بیٹے ہو؟ تعلیم کس قدرہے؟ جواباً میں نے اپنے اوراپنے والد صاحب کےبارہ میں بتایا اورکہا کہ میں یونیورسٹی کا گریجویٹ ہوں، تو بے حدخوشی کا اظہارکیااوریہ بھی کہا کہ مجھے احمدیت کا پیغام سب سے پہلے تمہارے والد کی طرف سے ملا تھا۔ نیزبلیٹن انگریزی میں لکھنے کا ارشاد فرمایا۔ یوں یہ کام میرے سپرد ہوگیا۔

دوتین شماروں کے بعد مکرم ملک صاحب نے مجھے فرمایا کہ اس بلیٹن پراپنا نام بطورایڈیٹرکے کیوں نہیں لکھتے؟ تو میں نے دبی زبان سے عرض کیا کہ اس پر پہلے ہی وکالتِ تبشیر کا نام درج ہے اورمیں اپنا نام لکھنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا۔ تومجھے ارشاد فرمایا کہ آئندہ بلیٹن پر اپنا نام بطورایڈیٹر ضرورلکھاکرو۔ ارشاد کی تعمیل کی گئی اوربلیٹن پر میرانام بطورایڈیٹر لکھا جانے لگا۔ 

            جس دن تلاشی ہونی تھی اُس سے چند روزقبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ارشاد ملا کہ مشنوں کوجو بلیٹن بھجوایا جاتا ہے اُس کی تمام نئی اورپرانی کاپیاں تلف کردی جائیں۔ اِس ارشاد کی تعمیل کردی گئی۔ دفتر میں ہرکارکن کوحکم ملا کہ وہ اپنی میز پر نئی اورپرانی فائلیں دیکھے اورچیک کرے کہ اُس بلیٹن کی کوئی کاپی ریکارڈ میں موجود نہ ہو۔

            تلاشی والے دن سے پہلی رات نصف شب کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک نامورصاحبزادے میرے گھرآئے اوردروازہ کھٹکھٹایا۔ میں باہرنکلا اوراُنہیں دیکھا۔ وہ میرے دوست بھی تھے اورمیرے لئے بے حد قابلِ احترام بھی۔ اندرآنے کی اجازت مانگی اوراندرآگئے۔ یہ وہ دن تھے کہ ہمارے شہرربوہ میں بجلی نہیں آئی تھی۔ کمرہ میں گُھپ اندھیراتھا۔ میں نے عرض کیا کہ اجازت ہوتو لالٹین لے آؤں توجواب ملا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ میں خاموش ہوگیا۔ مجھے فرمایا کہ: ’’مجھے حضورؓ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے آپ کی طرف یہ پیغام دے کر بھجوایا ہے کہ کل تمہاری گرفتاری ہے۔ تم اس کے لئے تیارہوکردفترجانا۔‘‘

            میں نے ایک لمحہ کے لئے سوچا اورعرض کیا کہ حضورؓ کی خدمتِ عالی میں عرض کریں کہ میری طرف سے مطمئن رہیں۔ حضورؓ کے حکم کی من وعن تعمیل ہوگی۔ یہ گرفتاری میرے لئے اعزاز ہوگا۔ میرے اس کہنے پر صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ : ’’بات ابھی پوری نہیں ‘‘اورمزیدفرمایا: ’’یہ بھی ارشاد ہے کہ تمہارے علاوہ اورکوئی گرفتاربھی نہ ہو۔‘‘ یہ کہہ کر دروازہ کھولا اوربائیسکل پرسوارہوکر واپس تشریف لے گئے۔

             میں اندرآیا اورآخری حکم کے بارہ میں سوچا مگرکچھ سمجھ نہ آیا۔ اُس وقت تک میرے دوہی بچے تھے جوابھی چھ سات برس سے کم ہی تھے۔ میں نے اپنی بیوی کو حضورؓ کا ارشادسنایا اوراُسے تسلی دی کہ گرفتاری کے بعد حوصلہ سے وقت گذارنا۔ کسی وقت، کسی قسم کی بے قراری کا، کسی رنگ میں بھی اظہارنہ ہو۔

             بات دفتروں کی تلاشی کی ہورہی تھی۔ ہمارے Despatcher کی ٹرے کی تلاشی کے دواران ایک بلیٹن کی کاپی انسپکٹر کو نظر آگئی، جوغلطی سے وہاں رہ گئی ہوگی۔ اُس نے اُس کاغذ کو نکال لیا اورچندلمحے اُسے دیکھتا رہا۔ چہرہ کی یبوست ختم ہوگئی اورمنہ پر رونق اورچمک آگئی۔ اُس پرمیرانام بطورایڈیٹر لکھا تھا۔ اونچی آواز سے، رعونت سے پنجابی میں بولے: ’’کیہڑا ہے اوئے حسن محمدخان؟ ایدھرآجاوے‘‘ (کون ہے حسن محمد خان؟ وہ یہاں آجائے)

             اُن دنوں مکرم چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ ہمارے وکیل التبشیرتھے۔ اُن کی میز کے پاس انسپکٹر صاحب بیٹھ گئے ۔ دوسری طرف میں بیٹھ گیا اورگفتگو شروع ہوئی۔ جو ساری پنجابی زبان میں پُلسیانہ انداز کی گہری چھاپ کے ساتھ کی گئی۔

 انسپکٹر:             کِی ناں اے تیرا ؟ (تمہارا نام کیا ہے؟)

 حسن محمد خان:     جناب میرانام حسن محمد خان ہے۔

انسپکٹر:              تیرے پیو دا کِی ناں اے؟ (تیرے باپ کا کیا نام ہے؟)

حسن محمد خان:     میرے والد کانام فضل محمد خان ہے۔

 انسپکٹر:             وہ کیا کام کرتا ہے؟

 حسن محمد خان:    وہ حکومتِ پاکستان کے مرکزی دفترمیں اسسٹنٹ فنانشل ایڈوائزٹُودی گورنمنٹ آف پاکستان ہیں۔

 انسپکٹر:             کیا یہ بلیٹن تم لکھتے ہو؟

 حسن محمد خان:    جی! میں لکھتا ہوں۔

 انسپکٹر:             تم کِس کے حکم سے یہ بلیٹن لکھتے ہو۔

 حسن محمد خان:    جناب میں اِس دفتر کا ذمہ دارافسرہوں۔ میں اپنے ہی حکم سے بلیٹن لکھتا ہوں۔ 

 انسپکٹر:             تم کتنا پڑھے ہوئے ہو؟

 حسن محمد خان:    میں گریجویٹ ہوں۔

 انسپکٹر:             تم نے کس یونیورسٹی سے بی۔اے کیا اورکیا تمہارے پاس بی ۔اے کی ڈِگری ہے؟

 حسن محمد خان:    میرے پاس ڈگری ہے۔ کہیں تومیں گھر سے لے آؤں۔ دِلّی یونورسٹی سے بی۔اے کیا تھا۔

 انسپکٹر:             نہیں! بعد میں دیکھیں گے۔ لیکن یہ بلیٹن تو ٹائپ ہؤاہؤا ہے۔ اِسے ٹائپ کون کرتا ہے؟ اور کس مشین پر ٹائپ کیا جاتا ہے۔

 حسن محمد خان:    اسے میں ہی ٹائپ کرتاہوں۔ قریب رکھی ٹائپ رائٹر کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اِس مشین پر یہ ٹائپ کیا جاتا ہے۔

 انسپکٹر:             اچھا تو پھرتمہاری سپیڈ کتنی ہے؟

 حسن محمد خان:    جناب! میرا خیال ہے کہ آپ یہ سوال نہ ہی پوچھیں۔ میں نے عرض کیا نا کہ میں نے ہی ٹائپ کیا ہے۔ اسے منظورکرلیں۔

                       انسپکٹر صاحب نے سپیڈ کے بارہ میں دوتین باردریافت کیا اورمیں نے یہی عرض کیا کہ اس کی بجائے اگلا سوال کریں۔ مگروہ اپنے اصرارپر قائم رہے۔ فرمایا کہ تمہیں اس سوال پر کیوں اعتراض کیو ں ہے۔

 حسن محمد خان:    میں اس سوال کا جواب اس لئے نہیں دے رہا کہ آپ کو میری سپیڈ کا یقین نہیں آئے گا۔

انسپکٹر:              تم بتاؤ۔ میں یقین کرلوں گا۔

 حسن محمد خان:    میری سپیڈ ستر (70) الفاظ فی منٹ سے بھی زیادہ ہے۔

 انسپکٹر صاحب غیرمعمولی طور پر اُچکے اورکہاکہ:’’ساڈے مُردے تاں پندرہ لفظاں توں وی وَدّ نہیں کردے‘‘ یعنی ہمارے مُردے ٹائیپسٹ تو پندرہ الفاظ فی منٹ سے زیادہ ٹائپ نہیں کرسکتے۔ میں مسکرایا اورخاموش رہا۔ اورمیں کربھی کیا سکتا تھا۔

 انسپکٹر:             اِس کو سائیکلوسٹائل کس مشین پر کرتے ہو؟

 حسن محمد خان:    ہم تو سائیکلوسٹائل نہیں کرتے۔ ہم تو Duplicateکرتے ہیں۔ 

 انسپکٹر:             ہم تو اِسے سائیکلوسٹائل ہی کہتے ہیں۔ 

 حسن محمد خان:    آپ تو پولیس افسر ہیں۔ آپ کو ہربات کہنے کااختیارہے۔ آپ پرنٹ بھی کہیں توآپ کوکون روک سکتا ہے۔ مگرہم اسے Duplicate ہی کہتے ہیں۔(مجھے معلوم تھاکہ یہ لفظوں کا ہیرپھیر ہے۔ سائیلوسٹائل کہوتو جرم ہے۔ اورلفظ Duplicate قانونی ہے۔)

انسپکٹر:              کونسی مشین پر سائیکلوسٹائل کرتے ہو؟

 حسن محمد خان:    مجلس خدام الاحمدیہ کی مشین پر Duplicateکرتے ہیں۔

 انسپکٹر:             وہ مشین تو ہم نے ضبط بھی کرلی ہے۔

میں اس پر خاموش رہا۔

 انسپکٹر:             اچھاپھر اِنہیں لفافوں میں کون ڈالتا ہے؟

 حسن محمد خان:    میں ڈالتا ہوں اورمیں ہی ٹکٹیں لگاتا ہوں۔

 انسپکٹر:             اِس کی ڈاک کا حساب کون رکھتا ہے؟

 حسن محمد خان:    یہ بھی میں ہی رکھتا ہوں۔ (ابھی چندروزقبل ہم نے بلیٹن کی ڈاک کا پرانا حساب ختم کرکے نیاحساب بنایا تھا جو میں نے ہی تیارکیا تھا۔)

 انسپکٹر:             (جھنجلاکربولے) کیا تم اِسے ثابت کرسکتے ہو؟

میں اُٹھا اوراپنی میز کی دراز میں سے وہ کاپی لاکر اُن کے سامنے رکھ دی اورعرض کیا کہ جناب یہ حساب میرے ہاتھ کا ہی بنایا ہؤاہے اوریہ سبز رنگ کی دوات جوآپ کے سامنے پڑی ہے، اس کی سیاہی سے یہ لکھا گیا ہے۔ اپنے جیب سے ایک فاؤنٹین پن انسپکٹر صاحب کے ہاتھ میں دے دیا اورکہا کہ یہ قلم میں نے امریکہ سے امپورٹ کیا تھا اِس کی نب Gold Tipped ہے اوراس کی قیمت مجھے سات روپے اداکرنا پڑی تھی۔ (یہ قلم ہم نے امریکہ سے امپورٹ کیا تھا جبکہ میں وکالتِ تجارت میں کام کرتا تھا۔)

انسپکٹر:              تم پہلے کہہ آئے ہوکہ تم اِس دفتر کے ذمہ دارافسرہواورمجھے یہ بھی بتاتے ہوکہ یہ بلیٹن لکھتے بھی تم ہو، ٹائپ بھی تم کرتے ہو، لفافوں میں بھی تم ڈالتے ہو، اِن پر ٹکٹیں بھی تم ہی لگاتے ہواوراب یہ کہتے ہوکہ ڈاک میں بھی تم ہی ڈالتے ہو۔ یہ کیسی افسری ہے؟ افسرلوگ تو ایسا نہیں کیا کرتے۔

حسن محمد خان:     جناب میں واقفِ زندگی ہوں۔ ہمارا ماٹوہے کہ ہمیں جو بھی حکم ملے گاہم اُسے تابعداری، ادب، وفاداری اورمحبت سے سرانجام دیں گے۔ یہ ہمارے وکیل التبشیرہیں اوربڑے افسر ہیں۔ اگریہ مجھے حکم دیں کہ روزانہ صبح آکر دفترکھولوں اورلوگوں کے آنے سے پہلے کمرہ میں جھاڑودوں، میزیں، کرسیاں وغیرہ صاف کروں تو میری مجال نہیں کہ میں اِن کے حکم کی تعمیل نہ کروں۔ اگرشبہ ہوتواِن سے پوچھ کرتصدیق کروالیں۔

 انسپکٹر:             مُنڈابہت چلاک اے۔ (لڑکا بہت چلاک ہے۔)

            انٹرویوختم ہؤا۔ انسپکٹر صاحب سخت جھلّائے ہوئے تھے۔ بڑے تلخ انداز میں کہا ’’اچھامیں تمہیں پریس ایکٹ کی دفعہ اِکیّس شق نمبر 18(یہ مجھے پوری طرح یاد نہیں کہ یہی شق تھی یا کوئی اور) کے تحت گرفتارکرتا ہوں۔ جاؤ اورسامنے یہ جیپ کھڑی ہے۔ اِس میں بیٹھ جاؤ۔

            میں نے کہابہت اچھا جناب اورجانے کی تیاری کرنے لگا۔ مکرم جناب مشتاق باجوہ صاحب نے انسپکٹر صاحب سے کہاکہ جناب یہ ہمارے دفتر کا ذمہ دارافسر ہے۔ اِسے یہیں دفترمیں بیٹھنے دیں۔ جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے جائیں۔ انسپکٹر صاحب مان گئے اورمجھے دفترمیں ہی بیٹھنے کی اجازت مِل گئی۔

             اس کے بعد فوری طورپر وکیل القانون مکرم چوہدری غلام مرتضیٰ صاحب بارایٹ لاء کے ساتھ مشورہ کیا گیا۔ قانون کی رُو سے پریس ایکٹ کی اِس شق کے تحت گرفتاری کی ضمانت ہوسکتی تھی۔ پولیس کے ساتھ ایک مجسٹریٹ تھا۔ دفترتبشیرکے ہی ایک دوست نے چھ ہزارروپے کی ضمانت دی اورہم ضمانت پررہا ہوگئے۔ یوں حوالات کی کال کوٹھڑی سے نجات مِل گئی۔ ذٰلِکَ فَضلُ اللّٰہ یو تیہِ مَن یَشاءُ

مجھے انتہائی خوشی تھی کہ میرے علاوہ کوء اورگرفتاربھی نہ ہؤا اورمولاکریم نے مجھے بھی حوالات کی کال کوٹھڑی سے اپنے فضلوں سے امان بخشی۔ اورحضرت خلیفۃ المسیح ؓ کے حکم کی تعمیل کی توفیق بھی عطاء فرمائی۔ اِس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد لاہورمیں مارشل لاء لگ گیا۔ اورہمیں پریس ایکٹ والے مقدمہ کی کوئی پیشی بھگتنی ہی نہ پڑی اورجانے وہ مقدمہ کہاں غرق ہؤا۔ خدا کی عمیق درعمیق حکمتوں کوخداہی جانتا ہے۔