حکیم مولوی محمد رشید رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Hakeem Muhammad Rasheed (ra)

(تحریر:حکیم محمد نسیم صاحب۔سابق صدر جماعت گھنوکے ججہ، ضلع سیالکوٹ، حال ربوہ)

ہمارے دادا جان حضرت عطاء ربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ہاں، ہمارے والد صاحب کی پیدائش 1893ء یا 1894ء میں قادیان دارالامان کے نزدیک ایک گاؤں ڈلہ میں ہوئی۔

ہمارے والد صاحب  حکیم مولوی محمد رشید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے:

’’ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا جب ہمارے دادا جان نیک محمد صاحب، ہمارے والد حکیم عطاء ربّی صاحب کو کہا کرتے تھے کہ

’ اگرمرزا غلام احمد کبھی کوئی دعویٰ کریں تو ان کا پیروی کرنا۔‘

 چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کرنے بعد ہمارے والد حکیم عطاء ربّی صاحب نے فوراً آپ کی بیعت کرلی۔ ہمارے دادا جان نیک محمد صاحب اُس وقت وفات پاچکے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت مرزا مبارک احمد صاحب جو چھوٹی عمر میں وفات پاگئے تھے، میرے ہم عمر تھے اور ہم اکٹھے قادیان میں پڑھتے تھے۔ میں بھی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جاتا تھا اور بار حضور نے مجھے ایک پیسہ بھی دیا تھا۔‘‘

ہمارے والد صاحب ، دراز قد اور سرخ وسپید رنگ کے مالک تھے اور سر پر پٹے تھے۔ اور کُلّہ والی پگڑی پہنتے تھے۔آپ کی تعلیم پرائمری تک تھی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ صلاحیت والا دماغ اور وسیع علم عطاء فرمایا تھا۔ اردو، عربی ، فارسی اور انگریزی کے ماہر اور اعلیٰ درجہ کے مقرر تھے۔غیرازجماعت احباب سے گفتگو کرتے وقت ایک رعب اور جلال طاری ہوجاتا تھا۔ لوگ یہی خیال کرتے تھے کہ آپ کسی اعلیٰ درجہ کے دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں۔

1925ءکے لگ بھگ آپ گھنوکہ ججہ ضلع سیالکوٹ منتقل ہوگئے۔گھنوکہ ججہ میں آپ امام الصلٰوۃ، سیکرٹری مال، زعیم انصاراللہ اور صدرجماعت کے طور پر تمام عمر خدمت سرانجام دیتے رہے۔

ایک دفعہ گھر میں آپ کا پسندیدہ کھانا پکا ہواتھا۔ میں وہ کھانا آپ کو مسجد میں دے آیا۔ کچھ دیر کے بعد ، جب برتن لینے گیا تو آپ نے کہا کہ میں نے وہ کھانا تو کسی مسافر کو دے دیاہے لہذا گھر سے اور کھانا لے آؤ۔ میں نے کہا کہ وہ کھانا صرف آپ کی پسند کے مطابق، شوق سے تیارکیا گیا تھا۔ آپ کوبھی علم تھا وہ کھانابھی صرف اتنی مقدار میں تھا۔ اگر آپ نے مسافر کو کھانا کھلانا تھا پیغام بھجوادیتے میں مسافر کے لئے کھانا دے جاتا۔ ہمارے والد صاحب میری اس بات سے سخت ناراض ہوگئے اور ڈانٹ کرکہنے لگے کہ مجھے معلوم تھا وہ کھانا صرف اتنا ہی تھی۔ لیکن جب مسافر آگیا تو میرے لئے یہ ناممکن تھا کہ میں اپنا پسندیدہ کھانا اپنے پاس رکھ کر مسافر کے لئے سادہ کھانا منگواتا۔ اور خبردار! آئیندہ جو ایسی بات دوبارہ کی۔

حضرت رسول کریمﷺ  اور ان کے اہل بیت سے بہت محبت کرتے تھے ۔ آپ کو پانچ دفعہ  خواب میں حضرت رسول کریم ﷺ کی زیارت ہوئی۔جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو آپ نے اس کا نام خدیجۃ الکربیٰ رکھا۔

اردگردکے قریباً 25دیہاتوں میں تبلیغ کرنا آپ کا معمول تھا۔ بڑے بڑے غیرازجماعت علماء بھی آپ کے سامنے بات کرنے سے ڈرتے تھے۔ علاقہ کے تمام لوگ آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور دلی لگاؤ رکھتے تھے۔ بعض شریف النفس علماء حضرات مثلاً بھگت پور کے مولوی محمد عبداللہ صاحب اور کوٹ آغا کے مولوی خلیل صاحب ، راہنمائی اور ملاقات کے لئے خود چل ہمارے گھر آتے تھے۔لوگ کہتے تھے کہ ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ یہ قادیانی مرزائی ہیں۔ ہم تو ان کے کردار، اخلاق اور علم کے شیدائی ہیں۔

ہمارا گھر گاؤں کے وسط میں ، سب سے اونچا تھا۔آپ چھت پر ایک بڑی مضبوط میز جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب رکھی ہوتی تھیں، کے پاس کھڑے ہوجاتے اور لوگوں کو تقریر کرتے۔

آپ ایک بلندپایہ کے حکیم تھے جس کی وجہ سے آپ کی وجاہت میں مزید اضافہ ہوگیاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں غیرمعمولی شفاء رکھی ہوئی تھی۔ ایک دفعہ چوہدری نذیرمحمد صاحب آف کالی صوبہ خاں ضلع گوجرانوالہ کی بیوی سخت بیمارہوگئی اور ڈاکٹروں نے بھی مایوس ہوکر علاج چھوڑ دیا۔ خاتون کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تھی جب والد صاحب کو بُلایا گیا۔ آپ نے علاج شروع کیا اور صرف ایک دن میں ہی مریضہ کوشفاء ہوگئی۔ خاتون کا خاندان ہمیشہ ہمارے والد صاحب کا ممنون رہا۔

اِسی طرح مرض اٹھرا کے علاج کے لیے والد صاحب کے پاس بڑا مجرب نسخہ تھاجس کے استعمال سے بے شمار عورتوں کو اولادعطاء ہوئی۔ بعض غیرازجماعت خواتین تو بچوں کی پیدائش کے بعد باقاعدہ ’’چڑاوھا‘‘ کے تحفے لے کرآتی تھیں۔

گھنوکہ ججہ کے پاس ایک گاؤں بھڈال ہے، وہاں کے ایک بزرگ چوہدری شرف الدین صاحب تھے۔ اُن کا ہمارے والد صاحب سے بڑا میل ملاپ تھا۔ ایک دفعہ رمضان کا مہینہ آگیا لیکن اُن کو نمازِ تراویح کے لئے بہت کوشش کے باوجودکوئی امام نہ ملا۔ ایک دن وہ ہمارے وہ والد صاحب کے پاس آئے اور  اپنے مولویوں کا شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔

 ’’مولوی صاحب! رمضان کا مہینہ آگیا ہے۔ مولویوں سے نماز تراویح کے لئے سودا کررہا ہوں مگر مولوی پیسے بہت زیادہ مانگ رہے ہیں۔ اس طرح بات کررہے ہیں جیسے کسی جانور بھینس گائے کا سودا ہورہا ہو۔‘‘

ہمارے والد صاحب نے فرمایا۔

 ’’شرف دین پریشان نہ ہو۔میں آپ کے گاؤں جاکر نماز تراویح پڑھا آیا کروں گا اور کھانا بھی گھر سے کھا کر جاؤں گا۔ آپ پر کوئی بوجھ نہیں ہوگا اور ساتھ میں ہرروز آپ کو چوّانی(چارآنے) بھی دے کر آیا کروں گا۔‘‘ (اُس وقت چارآنے بھی بہت وقعت رکھتے تھے)

چوہدری شرف دین صاحب شرمندگی کے ساتھ ہنستے رہے اور کہنے لگے کہ آپ کے احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کو نہیں بلایا جاسکتا۔

ہمارے والد صاحب کو سیروسیاحت کا بہت شوق تھا۔ ایسے زمانے میں جب لوگوں کے لئے گائوں سے شہر جانا بھی مشکل تھا، ہمارے والد صاحب کوئلہ والی ریل گاڑی پر بیٹھ کر ایران کی سیر کرکے آئے۔ اسی طرح گھوڑے پر بیٹھ کر سری نگر کی سیر کرکے آئے۔

آپ کو کتابوں سے خاص شغف تھا۔ سلسلہ احمدیہ کی تمام کتب خرید تے تھے۔آپ کتابوں کو چمڑے کی مضبوط اور خوبصورت جلد کرواتے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیرکبیر کی تمام جلدیں، مشہور مترجم حضرت شاہ رفیع الدین کا ترجمہ قرآن اور کئی دیگر نایاب کتابیں ابھی تک ہمارے پاس محفوظ ہیں۔

جماعت کی طرف سے ہونے والی ہرتحریک پر آپ لیبک کہتے تھے۔ آپ کا نام، کتاب بنام ’’اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والے، تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین، از نومبر1934ء تا 1953ء‘‘ مرتبہ چوہدری برکت علی خاں صاحب، کے صفحہ نمبر 212تا214پر درج ہے۔آپ کا کمپئوٹرازڈ حوالہ نمبر 0172300 ہے۔ ریکارڈ کے مطابق آپ کا پہلا وعدہ اور ادائیگی 11روپے تھی۔ آپ موصی بھی تھے ۔ آپ کا وصیت نمبر 17847 اور جائیدادنمبر7683تھا۔ آپ کی وفات 1986ء میں گھنو کہ ججہ ضلع سیالکوٹ میں جبکہ تدفین بہشتی مقبرہ، ربوہ کے قطعہ نمبر 17، بلاک نمبر3میں ہوئی۔ آپ کے کتبہ پر تحریر ہے کہ آپ رفیق (صحابی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔

انتہائی مہمان نواز اور باجماعت نماز کے عادی تھے۔ عمر کے آخری حصہ میں جب آپ کی نظر بھی ختم ہوچکی تھی اور ضیعف ہونے کی وجہ سے تمام وقت چارپائی پر لیٹے رہتے تھے، اُس وقت بھی تنگ گلیوں سے گزکر مسجد میں جاکر امامت کرواتے۔حالانکہ کچی گلیاں تھیں جن کے درمیان میں نکاسی آب کی نالیاں ہوتی تھیں۔ (بارش میں جہاں پاؤں رکھا جاتا، کیچڑ کی وجہ سے جوتی وہیں رہ جاتی لہذا بارش میں واحد طریقہ یہی ہوتا کہ ننگے پاؤں چلا جائے۔)عموماً مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان کا وقت مسجد میں ہی گزراتے۔ اور بعض دفعہ عبادت میں اتنا مشغول رہتے کہ کھانا بھی مسجد میں ہی منگوالیتے۔   زندگی کے آخری کچھ حصہ میں ، پیرانہ سالی کی وجہ سے کچھ تعطل آیا تھا۔ گھر میں لیٹے ہوئے ہر وقت تسبیح اور دعائیں کرتے رہتے۔

ہمارے دادا حضرت عطاء ربّی صاحب کی نسل میں سے کئی لوگوں کو خدمتِ اسلام کی بھرپورتوفیق نصیب ہوئی۔ آپ کے ایک پوتے مولانا محمد سلیم صاحب فاضل مربی سلسلہ، مبلغ بلادِ عربیہ فلسطین بھی رہے ہیں۔