حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودعلیہ السلام بطور سلطان القلم

تحریر: محمد سلطان ظفر

’’اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سُلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقارِ علی فرمایا‘‘

            یہ فرمان تذکرہ (مجموعہ الہامات و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام) میں صفحہ 408  پر اخبار ’’الحکم‘‘ مورخہ 17جون1901ء جلد 5، نمبر 22کے حوالہ سے تحریر کیا گیا ہے۔

            مندرجہ بالا فقرہ کو پڑھنے سے تین باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ سلطان القلم کا خطاب الہامی ہے، دوسری بات یہ کہ اسلام کی آئنیدہ ترقیات ، تحریرات اور تصانیف کے ذریعہ ہوں گی۔ نیز اسلام پر کئے جانے والے تمام حملوں کا جواب جنگ و جدل کی بجائے لٹریچر سے دیا جائے گا۔ اور اسلام کی ترقی کے لئے افضل سعی یہ ہے کہ حق کے متلاشیوں کے لئے، تحریر کے ذریعہ پیغام پھیلایا جائے۔ مذکورہ نکات کو گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آج دنیا کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں یہ باتیں پوری شان سے پوری ہورہی ہیں۔ جس سے بذاتِ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی ثابت ہوتی ہے۔ آپؑ اور آپؑ کے غلاموں نے تصانیف کے ذریعہ پوری دنیا میں اسلام کا پیغام پھیلا دیا ہے اور جب بھی اسلام کے خلاف کوئی حملہ ہوا ، فی الفور اس کا جواب تحریر و تقریر کے ذریعہ دے دیا گیا۔ چونکہ یہی مستحسن راہ ہے لہذا اس وقت دنیا کے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کو مخالفین اور حکومتیں نہ صرف پرامن کمیونٹی سمجھتے ہیں بلکہ طریقہ استدلال کو بھی سب سے بہترین گردانتے ہیں۔ جس کی مثالیں یوکے، جرمنی اور کینیڈا کے سالانہ جلسوں پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔

            اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس عظیم الشان خطاب کو سمجھنے کے لئے ہم اس کے مندرجہ ذیل پہلوں پر غور کرسکتے ہیں۔

٭          معنی

٭        لفظ  ’ سلطان ‘  کا قرآنِ کریم میں استعمال

٭        تشریح

٭        ’’سُلطان القلم‘‘   اور  ’’ذوالفقارِ علی ‘‘  کا ایک تقابلی جائزہ

٭        حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف

٭        حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصانیف میں بطور سُلطان القلم، عظیم الشان کردار

٭        خدائی نصرت

٭        تصانیف کا نتیجہ

٭        مخالفین کا اقرار

٭        حرفِ آخر

·      معنی:

            عربی لغت میں لفظ سلطان دو طرح سے استعمال کیا گیا ہے۔

 ’’ سلطان‘‘ کے اولین معنی 1۔ دلیل 2۔ اقتدار3۔قُدرت ہیں جبکہ ثانوی’’ سلطان‘‘ کے معنی حکمران کے ہیں۔

(فیروزاللغات: عربی اردو،  صفحہ311   شائع کردہ: فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور)

·      لفظ ’سلطان‘ کا قرآن کریم میں استعمال:

            قرآن کریم میں لفظ  ’’سلطان‘‘  37بار استعمال کیا گیاہےاور ہرجگہ اسے دلیل ، حجت، برہان، غالب یا قوی کے معنوں میں ہی استعمال کیا گیا ہے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی سورۃ الرحمن کے تعارفی نوٹ میں سلطان کا معنی’ ’عظیم الشان استدلال‘‘ تحریر فرمایا۔

(قرآن کریم : اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف او ر مختصر تشریحی نوٹس :  از  حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ :  صفحہ 974اشاعت ثانی 2002)

·      تشریح:

            حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میں فرماتے ہیں:

            ’’یہ لفظ یعنے سلطان عربی زبان میں اس دلیل کو کہتے ہیں جو ایسی بین الظہور ہو جو بباعث اپنے نہایت درجہ کے روشن ہونے کے دِلوں پراپناتسلط کرلے۔ گویاسلطان کالفظ تسلط سے لیا گیاہے اورسلطان عربی زبان میں ہر ایک قسم کی دلیل کونہیں کہتے بلکہ ایسی دلیل کو کہتے ہیں جو اپنی قبولیت اور روشنی کی وجہ سے دِلوں پر قبضہ کرلے۔ اور طبائع سلیمہ پر اُس کاتسلط تام ہوجائے۔‘‘

(تریا ق القلوب،  روحانی خزائن ، جلد15صفحہ505 Rohani Khazain CD vol 1, page 8460,—- )

            حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ {لا اِکراہ فی الدین } کی تشریح میں فرماتے ہیں:

’’…[لا اِکراہ فی الدین ]  ایک انبیا ء کی راہ ہوتی ہے، ایک بادشاہوں کی۔ انبیاء کا یہ قاعدہ نہیں ہوتا کہ وہ ظلم و جوروتعدی سے کام لیں۔ ہاں بادشاہ جبرواِکراہ سے کام لیتے ہیں۔…  ‘‘

(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ 391بحوالہ ـ’’الفضل انٹرنیشنل ‘‘ 15تا 21اگست 2003صفحہ 5)

            مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں سُلطان القلم کا اولین طور پر مطلب ،  ’’دلائل کے ذریعہ غالب اور قوی مصنف /حکمران‘ ‘  سمجھنا ہوگا۔ حکمران اور بادشاہ میں ایک باریک فرق ہے ۔ عموماً حکمران قاعدے ، قوانین کے مطابق حکومت کرتے ہیں اور تمام شعبوں پرغالب ہونے کی وجہ سے ، سب سے قوی ہوتے ہیں۔ جبکہ عموماً بادشاہ ، خاندان میں بادشاہت ہونے کی وجہ سے بادشاہ بن جاتے اور یہ ضروری نہیں کہ ان کے احکام انصاف پر مبنی ہوں۔ بادشاہ اگرچہ غالب اور قوی ہوتے ہیں مگریہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی سچائی اور دلائل کی وجہ سے غالب ہوں ۔

             نیز اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ لغت میں بھی سلطان کا مطلب بادشاہ نہیں بلکہ حکمران ہے۔ اگر چہ روز مرہ کی زبان میں ہم یہی سمجھتے ہں۔

·      ’’سُلطان القلم‘‘   اور  ’’ذوالفقارِ علی ‘‘  کا ایک تقابلی جائزہ:

            نواسہِ رسول ،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تلوار سے ہر موقع پر اسلام کا دفاع کیا اور ان کی فتوحات کا سلسلہ بھی انتہائی لمبا ہے۔ آپؓ کی تلوار کی کاٹ ہر دشمن کو چیر کر نکل گئی اور کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں کہ آپ کا دشمن آپ کے مقابلے میں فتح یاب ہوا ہو۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام لڑائیاں اسلام کے لئے لڑیں اور دشمن نے جب آپ ؓ کے منہہ پر تھوکا تو آپ نے اپنا انتقام نہ لیا بلکہ دشمن کو معاف فرمادیا۔

دور حاضر میں اللہ تعالیٰ نے تلوار کے جہاد کا التواء فرمایا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے قلم کے ذریعہ اسلام کا ہر موقع پر دفاع کیا اور آپ کے قلم سے نکلے ہوئے دلائل دشمن پر تلوار کی طرح پڑے۔آپ کے عزیزمرزا امام دین نے آپ کے راستے میں دیوار کھڑی کر کے آپ کوتکلیف پہنچائی۔ لیکن اختیار ملنے پر آپؑ نے، سنت ِ علی ؓ کے مطابق معاف فرمادیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو حاکمیت اعلیٰ ثابت کرنے کے لئے بالکل کسی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔  بوقت ضرورت دشمنوں کو للکارتے ہوئے فرمایا۔

’’سب صاحبوں کو قسم ہے کہ ہمارے مقابلہ پر ذرا توقف نہ کریں۔ افلاطون بن جاویں۔ بیکن کا اوتار دھاریں ۔ ارسطو کو نظر اور فکر لاویں۔ اپنے مصنوعی خداوں کے آگے استمداد کے لئے ہاتھ جوڑیں۔ پھر دیکھیں جو ہمارا خُدا غالب آتا ہے یا آپ لوگوں کے آلہہ باطلہ۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ دوم، سرورق صفحہ 2,3,4)

·      حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیفات:

            حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصانیف کا آغاز اس وقت کیا جب آپ کو اندازہ ہوا کہ صرف مضامین لکھ کر اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں آپ نے ایک مستقل تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کا آغازفرمایا۔شروع میں اس عنوان سے  پچاس کتب شائع کرنے پروگرام تھامگر بوجوہ پانچ جلدیں شائع فرمائیں۔ اس کتاب کے پہلے دو حصے 1880ء میں شائع ہوئے جبکہ تیسرا، چوتھااور پانچواں حصہ بالترتیب 1882، 1884اور 1905میں شائع ہوئے۔ (حیات طیبہ صفحہ50،52) ان کتب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنِ کریم اور حضرت رسولِ کریم ﷺ کی صداقت کے ایسے شاندار دلائل دئیے کہ اپنے پرائے دنگ رہ گئے۔ جہاں مخالفین کے حواس باختہ ہوئے وہیں عاشقان اسلام نے سکھ کا سانس لیا۔

            اس شاندار آغاز کے بعد آپ کے قلم سے دلائل و براہین کا وہ سمندر بہہ نکلا جس کے سامنے سب مخالفین خش و خا ک کی طرح بہہ گئے۔ عیسائی ، آریہ ، سکھ، اور عرب دان آپ کے مقابلہ میں آئے اور شکست و ریخت کا شکار ہوئے ۔ اور کیوں نہ ہوتے جبکہ آپ کی پشت پر خدائے ذوالجلال کا اپنا ہاتھ تھا۔

            آپ نے اللہ تعالیٰ ، قرآنِ کریم اور رسول کریم ﷺ کی سچائی میں ایسے عظیم الشان دلائل دئیے جن کا توڑ ناممکن تھا لہذا آپ نے متعدد مواقع پر ان دلائل کو جھٹلانے والے کے لئے اپنی جائیداد اور لاکھوں روپے کے انعامات کا اعلان فرمایا مگر آج تک کسی مذہب، فرقے یا قوم کا کوئی فرد، باوجود کوشش کے، ایسا نہیں کرسکا اور نہ تاقیامت کرسکے گا۔ انشاء اللہ۔

            حضرت مسیح موعود کی تصانیف کی تعداد 80سے زائدہے جبکہ لاتعداد مضامین اور اشتہار اس کے علاوہ ہیں۔علاوہ ازیں بعض علماء ہند و عرب سے خط و کتابت بھی فرماتے رہے نیز آپ کے مناظرے بھی تحریری شکل میں موجود ہیں۔ ان تمام اصناف کو اگر پڑھا جائے تو ایک واضح نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ان کا مصنف غیرت دینی اور تائید الہی رکھنے والا ہے ۔ بے شمار خلقت صرف آپ کی کتابیں پڑھ کر حقیقی اسلام سے بہرہ مند ہوئی اور پیارے اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی۔

·      حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تصانیف میں بطور سُلطان القلم عظیم الشان کردار:

            اگرچہ آپ کی تمام کتب پر تبصرہ کرنے کے لئے بذات خود کئی کتب کی ضروت ہے لیکن نفس مضمون کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ آپ ؑ کی چند کتب کے بارہ میں مختصر بتایا جائے۔

            ’’ ازالہ اوہام ‘‘دو حصوں میں شائع ہوئی۔ اس میں آپ نے وفات ِ مسیح اور اپنے دعویٰ کے بارہ میں پُرشوکت دلائل دئیے اور حیات مسیح کے نقصانات کو تفصیل سے بیان فرمایا۔

            محتلف لوگوں کے اعتراضات و سوالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ نے 1882ء میں ایک کتاب ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ جس کا دوسرا نام ’’دافع الوساوس‘‘ بھی ہے ، لکھی۔ یہ کتاب فروری 1883میں شائع ہوئی ۔ یہ کتاب بھی دلائل سے پرہے ۔ اس کتاب کی تصنیف کے دوران حضرت مسیح موعود کو دو مرتبہ رسول کریم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ ﷺ نے اس کتاب کی تالیف پر بہت مسرت ظاہر فرمائی۔

(ضمیمہ کمالات اسلام ایڈیشن اول صفحہ 4)

            1895ء میں ’’ست بچن‘‘کی تصنیف ہوئی ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سفر ڈیرہ بابا نانک کی وجوہات اور گورو گرنتھ صاحب اور جنم ساکھیوں سے حضرت باوا نانک رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک کی وضاحت فرمائی ہے۔

            1895ء میں ہی کتاب ’’آریہ دھرم‘‘شائع ہوئی جس میں کثرت ازدواج، طلاق اور آریوں کے مسئلہ نیوگ کو کھول کھول کر بیان فرمایا۔

1905ء میں حضرت مسیح موعود کو رویا او رالہامات کے ذریعہ مالک حقیقی سے ملاقات کا وقت قریب بتایا گیا تو آپ نے ’’ رسالہ الوصیت‘‘تحریر فرمایا جس میں آپؑ نے اپنے بعد نظام خلافت کی خوشخبری دی، نیزآپ نے بہشتی مقبرہ کے قیام کا اعلان فرمایا۔ نظامِ خلافت کے جو بابرکت پھل آج ہم کھارہے ہیں اس کی نظیر دنیا میں موجود نہیں ہے ۔اسی طرح روزنامہ الفضل ربوہ (7اگست 2003) کے مطابق اب نظام وصیت میں 35,500کے قریب افراد شامل ہوچکے ہیں۔

            19جون1897ء کو ملکہ معظمہ وکٹوریہ کی ساٹھ سالہ جوبلی کے موقع پر آپ علیہ السلام نے ایک رسالہ ’’تحفہ قیصریہ‘‘تحریر فرمایا۔ جس میں موجودہ مذہب عیسوی کو غلط اور اسلام کا صحیح مذہب ہونا ثابت کیا گیا۔ نیز ملکہ معظمہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔

            آپ کی تصانیف کا ذکر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘ کے ذکر کے بغیر ناممکن ہے۔  26تا 28دسمبر 1896ء میں جلسہ مذاہب عالم منعقد ہواجس میں آپؑ نے پانچ سوالوں کے جواب میںاللہ تعالیٰ کی تائیدسے دلائل کے وہ انبار لگاے کہ آپ کا مضمون تمام مضمونوں سے بالا رہا۔ اس مضمون کو سنتے ہوئے سامعین پر ایک وجد طاری ہوگیا اور جلسہ کا ایک دن صرف اس مضمون کے لئے بڑھا دیا گیا۔یہی مضون اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے شائع ہوا۔

·      خدائی نصرت:

            ایک اشتہار کے جواب میں مولوی محمدحسین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نعوذ باللہ جاہل اور علومِ ربیہ سے بے بہرہ قراردیا تو آپ علیہ السلام نے باری تعالیٰ کے حضور دعا کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ایک رات میں آپ کو عربی زبان کے چالیس ہزارمادے سکھادئیے ۔ جس پر آپ نے عرب و عجم پر حجت قائم کرنے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور ان کے ہم خیال مولویوں کے کبر کو توڑنے کے لئے عربی زبان میں 24کے قریب کتب تحریر فرمائیں۔

(ماخذحیات طیبہ ،از حضرت شیخ عبدالقادرؒ، صفحہ 135)

·      تصانیف کا نتیجہ:

            اپنی تصانیف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنِ کریم اور حضرت رسولِ کریم ﷺ کی صداقت کے ایسے شاندار دلائل دئیے کہ اپنے پرائے دنگ رہ گئے۔ جہاں بڑے بڑے عالم اور پادری مقابلہ سے بھاگ گئے وہاں ان تحریروں کے نتیجہ میں آپ کو اپنے غلاموں کی وہ عظیم الشان فوج بھی نصیب ہوئی جو رسول کریم ﷺ کے علاوہ کسی کا مقدر نہ بنی۔

·      مخالفین کا اقرار:

            ’’…اگرچہ مرحوم پنجابی تھا۔ مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی ۔کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں۔…اس کا پُرزور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے۔اور واقعی میں اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ ‘‘

(کرزن گزٹ دہلی جون 1908ء بحوالہ حیات طیبہ صفحہ 262)

·      حرفِ آخر:

رسول کریم ﷺ کے عاشق ِ صادق ، امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی موعود نے قلمی جہاد کے لئے اپنی مبارک زندگی کا بہت بڑا حصہ صرف کیا۔ آج سے ، سو، سوا سو سال پہلے کتابت و طباعت کس قدر دُرشوار تھی اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل امر ہے۔ پتھروں اور لکڑی کے تختوں پر اُلٹی عبارت اُبھار ی جاتی تھی اور پھر اسے چھاپہ خانہ میں کاغذ پر مہر کی طرح لگایا جاتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کے مراحل بھی بے حد دشوار تھے۔ آپؑ خود کتابت کی نگرانی کرتے ، پروف ریڈنگ کرتے ، درستگی کرواتے اور پریس میں کاپی بھیجتے۔ اور جب کسی کتاب کی اشاعت کا وقت قریب آتا تو دن رات ایک کردیتے۔ صرف اور صرف اس لئے کہ اِن کتب میں وہ روحانی خزائن موجود تھے جن کے سامنے تمام دنیاوی خزانے ہیچ ہیں۔ یہی کتب ہیں جن کے ذریعہ آج پوری دنیا میں اسلام احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے۔

 آپ اپنے ہتھیار یعنی دلائل پر زوردیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

            ’’…اے میرے دوستو! اب میری ایک آخری وصیت کو سنو۔ … صرف مسیح ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پرزور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کردو۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم۔  روحانی خزائن ، جلد 3صفحہ 402 Rohani Khazain CD vol 1, page 1826,—- )

             آج جب کہ پوری دنیا اسلام کو کچلنے پر تلی ہوئی ہے اور اسے ایک وحشی اور قتل و غارت کا منبع سمجھتی ہے ، صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیرو کار ہی مذہب ِ امن و آتشی یعنی حقیقی اسلام کا جھنڈا اٹھائے ہوئے دنیا کو حقیقت سے روشناس کروانے کی سعی کررہے ہیں۔ اللہ کرے کہ سلطان القلم ؑ کے ہر ماننے والے کے قلم میں بھی، ذوالفقارِعلی ؓ کی قوت سماجائے اور وہ اسلام کے دفاع کے لئے اس کا بھر پور استعمال فرمائے۔ (آمین)